تمہارے تاج میں پتھر جڑے ہیں
جو گوہر ہیں وہ ٹھوکر میں پڑے ہیں
اڑانیں ختم کرکے لوٹ آؤ
ابھی تک باغ میں جھولے پڑے ہیں
مری منزل ندی کے اُس طرف ہے
مقدر میں مگر کچے گھڑے ہیں
اُسے تو یاد ہیں سب اپنے وعدے
ہمیں ہیں جو اسے بھولے پڑے ہیں
میں پاگل ہوں جو ان کو ٹوکتا ہوں
مرے احباب تو ’’چکنے گھڑے‘‘ ہیں
تم اپنا حال کس سے کہہ رہے ہو
تمہاری عقل پر پتھر پڑے ہیں
محل خوابوں کا ٹوٹا ہے کوئی کیا
یہاں کچھ کانچ کے ٹکڑے پڑے ہیں
یہ سانسیں، نیند اور ظالم زمانہ
بچھڑ کر تجھ سے کس کس سے لڑے ہیں
کسی نے یوں ہی وعدہ کرلیا تھا
جھکائے سر ابھی تک ہم کھڑے ہیں