ہم نے انسانی اعضاء پر بہت غوروخوض کیا تو پتہ چلا کہ انسانی اعضاء میں ناک کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔ چہرے پر ناک کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ناک کی سیاسی سماجی معاشرتی اور اقتصادی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔
بعض ناکیں زمین پر رگڑنے کے کام آتی ہیں جبکہ بعض ناکیں انتہائی جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ اگر انسان کو ناک کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ انسان ناک کی خاطر اپنی جان دے سکتا ہے لیکن ناک نہیں دے سکتا۔ اکثر ناک انسان کی عزت کا مسئلہ بن جاتی ہے اور بعض لوگ عزت کی وجہ سے اپنی ناک کٹوا بیٹھتے ہیں۔ بعض اوقات ناک عزت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور بعض اوقات عزت کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ ناک کی یہ کامیابی بعض لوگوں کے لیے انتہائی ’’دردناک‘‘ ثابت ہوتی ہے۔
انسان ہمیشہ اپنے بازوؤں کی قوت پر فخر کرتا رہا ہے لیکن ناک بھی کچھ کم طاقتور عضو نہیں۔ اگر مسئلہ ناک کا ہو تو قاتل جیل اور مقتول قبرستان پہنچ جاتا ہے۔
ناک کی اہمیت سے مکھیاں بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ مکھیوں کی اکثریت ناک پر بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ ناک پر بیٹھ کر مکھیاں کیوں اتنا ’’انجوائے‘‘ کرتی ہیں یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ جن لوگوں کی ناک پر مکھیاں بیٹھتی ہیں ان کے دونوں ہاتھ حرکت میں آجاتے ہیں اور وہ یہ گوارا نہیں کرپاتے کہ ان کی ناک مکھیوں کے زیرِ استعمال رہے۔ پس ثابت ہوا کہ عزت کے ساتھ ساتھ ناک کا مکھیوں سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔
ہم نے طویل جدوجہد کے بعد ناک کی مختلف اقسام کا مطالعہ کیا ہے جو یقینا عمومی دلچسپی کی حامل نہیں لیکن خصوصی دلچسپی کی حامل ضرور ہیں۔ ناکیں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں پھلکی کی طرح پھیلی ہوئی، چھوارے کی طرح سمٹی ہوئی ، گاجر کی طرح لمبی، گنڈیری کی طرح چھوٹی اور طوطے جیسی مڑی ہوئی سرخ ناک کا بآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ناک خواہ کوئی بھی ہو، وہ محض ناک نہیں ہوتی جب وہ اپنا رنگ بدلتی ہے تو خوف ناک، ہول ناک، دہشت ناک اور ہیبت ناک تک بن جاتی ہے۔ جب ناک اپنا یہ رنگ دکھاتی ہے تو بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتی ہے۔
جب ناک بگڑی ہوئی ہو یا بلا جواز پھیلنے لگے تو ایسی ناک نکیل ڈالنے کے کام آتی ہے۔ ناک خواہ کتنی ہی خطرناک اور طاقتور کیوں نہ ہو، اس کو قابو میں کرنے کے دو ہی آسان نسخے ہیں۔ ایک ناک میں نکیل ڈالنا دوسری اسے پکڑ لینا۔ ناک میں نکیل ڈالنے سے نہ صرف ناک قابو میں رہتی ہے بلکہ جس کی ناک میں نکیل ڈالی جاتی ہے، وہ بھی ناک کی سیدھ میں چلتا ہے۔ بعض لوگوں کو ناک پکڑلینے کا عمل بہت ناگوار لگتا ہے۔ جبکہ یہی عمل بعض لوگوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی ناک پکڑوانا پسند نہیں کرتے دراصل وہ اپنے آپ سے زیادہ اپنی ناک کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ مسائل کی تحقیق کریں تو ان میں سے بیشتر سیاسی،معاشی اور معاشرتی مسائل کا ناک سے گہرا تعلق ظاہر ہوگا۔ اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ ناک ہمارا سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ اگر ناک نہ ہوتی تو ہمارے بیشتر مسائل جنم لے کر اپنی موت آپ مرجاتے۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے بیشتر مسائل ناک کی آڑ میں پرورش پاکر بڑے بڑے مسئلے بن جاتے ہیں۔ بعض لوگ ناک کو مسئلہ بنالیتے ہیں ان کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ دانت اور آنکھ وغیرہ کو بھی مسئلہ بنالیں تاکہ ان اعضاء کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو۔