آج سے تقریباً سات سال پہلے باجی کا پھوپھی زاد بھائی کے لیے رشتہ آیا۔ چند وجوہ کی بناء پر میرے ابو اس رشتہ پر راضی نہ تھے لیکن پھوپھی زاد بہن نے رو رو کر پیروں میں دوپٹے ڈال ڈال کر ابو کو اس رشتے کی منظور کے لیے رضا مند کرلیا۔ یہ لڑکے کی اپنی پسند تھی جسے پورا نہ ہونے پر اس نے خود کشی کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ خیر بات پکی ہوگئی، منگنی کی رسومات ادا ہوگئیں۔ ابو کا خیال تھا کہ شادی کی رسومات بھی جلد ادا ہوجانی چاہئیں۔ کیونکہ کچھ دنوں کے بعد پھوپھی زاد بھائی ملک سے باہر جارہے تھے۔ انھوں نے ہماری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور میری منگنی والے روز انہیں بلایا تو پتہ چلا وہ صبح کی فلائٹ سے فرانس جاچکے ہیں۔ خیر ہم نے بات بڑھانی مناسب نہ سمجھی۔ باجی کی منگنی کا سارے خاندان کو علم تھا۔ سبھی لوگ باجی کو ان کے منگیتر کے نام سے چھیڑتے۔ ظاہر ہے کہ باجی کے ذہن میں منگیتر کا تصور گہرا ہوتا گیا۔ ادھر یہ حال کہ چار سال تک ہمیں علم ہی نہیں ہوا کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ چار سال کے طویل انتظار کے بعد وہ اچا نک آگئے۔ اس روز میری چھوٹی بہن کی منگنی تھی۔ منگنی کے دوسرے روز ہمیں علم ہوا کہ باجی کے منگیتر فرانس سے تشریف لے آئے ہیں اور بہن کی منگنی پر انہیں نہ بلانے پر شدید ناراض ہیں۔ ہمیں بخدا ان کے آنے کا علم ہی دوسرے روز ہوا تھا تو ہم بھلا انہیں کیسے مدعو کرسکتے تھے۔ تین مہینے اسی کشیدگی میں بیت گئے۔ ادھر ہمیں اطلاع ملی کہ امجد بھائی بڑی تائی کی لڑکی کارشتہ مانگنے گئے تھے انہیں اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ کیونکہ خاندان میں باجی سے ان کی منگنی کا سب کو علم تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں منگنی ٹوٹ چکی ہے۔ تایا جان نے اسی وقت فون کرکے ابو سے یہ بات پوچھی تو ابو کو شدید صدمہ پہنچا۔ ادھر باجی کا جہیز بن رہا تھا اور ہم لوگ منتظر تھے کہ کوئی تاریخ مقرر ہو تو باجی کا نکاح ہوجائے اور ادھر امجد صاحب نے تایا جان کو منگنی ٹوٹ جانے کا جھوٹا مژدہ سنایا۔ ابو نے تایا کو حقیقت سے آگاہ کیا کہ بھئی میں تو جہیز بنائے تاریخ کا منتظر ہوں اوریہ حضرت نئی منگنی کا سوچ رہے ہیں۔ تایا جان اور تائی کو بے حدصدمہ ہوا۔ انھوں نے دونوں بھائیوں کو خوب جھاڑ پلائی۔ (یاد رہے کہ اس بار وہ اپنی بہن کے بجائے بھائی کو ساتھ لے کر رشتہ لینے پہنچے تھے۔)
باجی کے ذہن پر اس حادثے کا شدید اثر تھا جس شخص کا نام وہ چار سال سے اپنے نام کے ساتھ سنتی آرہی تھیں اس کے تیور بلا وجہ بدل گئے تھے۔ وہ بجھی بجھی سی رہنے لگیں۔ ابو بھی اس حادثے کو برداشت نہ کرسکے اور بیمار ہوگئے وہ دن ہمارے لیے بہت برے تھے۔ اللہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ امجد صاحب تایا سے جھڑکیاں سن کر بڑے تایا کے پاس پہنچے اور ان کی لڑکی کا رشتہ مانگا اور فوری شادی کی درخواست کی۔ بڑے تایا نے دوسرے روز نکاح کردیا اور ہمیں ان کے نکاح کی اطلاع تار کے ذریعے بھیجی اب آپ سوچئے میری باجی اور ہمارے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی؟ ممکن تھا باجی اس صدمے سے بیمار ہوجاتی کہ امی اور ابو نے عقل مندی سے کام لیا اور خالہ زاد بھائی نعمان سے ان کی فوراً شادی کردی۔ ابو کی شروع سے خواہش یہی رہی تھی کہ نعمان کی باجی سے شادی ہوگی وہ بہت نیک اور سعادت مند انسان ہیں۔ انھوں نے باجی کو اتنا پیار اور سکھ دیا کہ باجی خواب کی طرح پرانی بات بھول گئیں۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے جائیے امجد صاحب نے نکاح تو کرلیا لیکن رخصتی پر آمادہ نہ ہوئے کیونکہ جب تک وہ کاروبار نہیں جمالیتے رخصتی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ باہر سے لایا ہوا سارا سرمایہ کاروبار میں لگا یا تقدیر نے ساتھ نہیں دیا کاروبار چوپٹ ہوگیا اور سارا سرمایہ ڈوب گیا ، حتی کہ وہ مقروض ہوگئے۔ بڑے تایا کا انتقال ہوچکا تھا ان کی بیوی یعنی بڑی تائی مصر تھیں کہ بیٹی کی جلد رخصتی ہو تاکہ وہ فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ امجد نے رخصتی سے صاف انکار کردیا۔ وہ دن بہ دن بدمزاج اور چڑچڑے ہوتے گئے۔ بات بات پر اپنی ساس سے جھگڑتے کہ وہ ابھی رخصتی نہیں چاہتے۔ بات بڑھی امجد نے سسرال جانا ترک کردیا۔ ایک دفتر میں بمشکل نوکری ملی وہاں کچھ گڑبڑ کربیٹھے مقدمہ ہوگیا اور نوکری بھی گئی۔ اب وہ تقریباً نیم پاگل ہوگئے۔ یہی کہتے پھرتے ہیں کہ یہ میری منکوحہ کی نحوست ہے جس نے مجھے تباہ کردیا۔ آخر وہی ہوا کہ انھوں نے تائی کی لڑکی کو طلاق نامہ بھجوادیا۔ امجد پر پاگل پن کے مسلسل دورے پڑتے ہیں ہر وقت یہی فقرہ دہراتے ہیں یہ میری منحوس بیوی کی وجہ سے ہوا۔ نیم پاگل ہوئے، ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں اور نہ جانے انہیں خدا نے کس لیے یہ سزا دی۔ ادھر میری باجی مزے کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ’’سچ ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔‘‘ اور اللہ تو سب کچھ دیکھتا ہے اور وہی کارساز ہے۔