ملگجی چاندنی پھیلی ہوئی تھی اور ہر طرف سناٹا اور خاموشی چھائی تھی۔ سڑک پر ویرانی اور گاؤں پر سکوت طاری تھا۔ ایسے میں پرانی حویلی سے رک رک کر کھانسنے کی آواز دور تک سنائی دے رہی تھی۔ دس قدم کے فاصلے پر سڑک کے کنارے بنی نئی عمارت کے پورٹکو میں ستونتی دیوی بے چینی سے ٹہل رہی تھی، جب بھی کھانسنے کی آواز طویل ہوتی اس کے قدم رک جاتے۔ نئی عمارت کے مکین محو خواب تھے اور صرف ستونتی ہی بیدار لگ رہی تھی۔ اپنی ماں کو پریشان دیکھ کر عمارت کے مالک نند کشور کی آنکھوں سے بھی نیند غائب ہوگئی۔ وہ دبے پاؤں کئی بار ماں کو دیکھ کر جاچکا تھا۔ پرانی حویلی سے کھانسنے کے ساتھ اب کراہنے کی آواز بھی آنے لگی تھی۔ رات گہری ہوتی جارہی تھی اور ستونتی دیوی کی بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا۔
نند کشور سے جب ماں کی بے کلی دیکھی نہ گئی تو وہ قریب آیا اور ان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ستونتی نے چونک کر اسے دیکھا جیسے نیند سے بیدار ہوئی ہو۔ نند کشور نے آرام کرنے کی التجا کی لیکن ان کی نگاہیں پرانی حویلی پر مرکوز رہیں، جہاں سے کھانسی اور کراہ کی صدا رک رک کر بلند ہورہی تھی۔ ستونتی دیوی کی زبان جیسے گنگ ہوگئی ہو۔ وہ ایک نظر نند کشور کو نہارتی پھر ان کی نگاہیں درد بھری آواز کا تعاقب کرنے لگتیں۔ نند کشور اپنی ماں کے جھریوں بھرے چہرے پر پریشانی بہ آسانی دیکھ رہے تھے۔ ان کی التجا پر ستونتی دیوی نے جب کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیا تو وہ روہانسا ہوکر بولے:
’’میا! بھائی جی ٹھیک ہوجائیں۔‘‘
’’اوں ہاں‘‘ ستونتی دیوی کی ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔
اس نے اداس نظروں سے بیٹے کو دیکھا اور حسرت و یاس سے پرانی حویلی کی طرف تکنے لگی۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نند کشور جذباتی ہونے لگے۔ ستونتی دیوی نے آنچل سے آنسو پوچھے اور گلا صاف کرکے بولی: ’’ہم تنی بڑکا بوّا سے مل آئیں؟‘‘
’’ایں وخت، اتّی رات گئیل، تو بھائی جی سے ملے؟‘‘ نند کشور کا جملہ اٹک گیا۔
’’ہاں کا ہوئی، ای سامنے جائب میں کتنا سمئے لگی۔‘‘ ستونتی دیوی نے جانے کی سبیل ڈھونڈی۔
’’تمہاری مرضی میّا۔ بھائی جی کے کہت تو جانی۔‘‘ نندو نے تنبیہ کے طور پر کہا۔
ستونتی دیوی کے پیر بے بس ہوگئے جیسے کسی نے باندھ دیے ہوں۔ کچھ دیر پہلے جو بے چینی اس کے اندر ہورہی تھی پل بھر کے لیے اس آگ پر پانی پڑگیا۔ اس کے ممتا بھرے دل میں بیٹے کی محبت کا جو جوالا مکھی پھوٹا تھا وہ اچانک ماضی کی یادوں کے ملبے تلے دب گیا۔ وہ پرانی حویلی میں رات گئے بھی جانا چاہتی تھی۔ مگر بیمار بیٹے آنند کے سلوک اور دونوں بھائیوں کی خلش نے اس کے قدم روک دیے تھے۔ ستونتی دیوی وہیں کرسی پر دھم سے بیٹھ گئیں۔ نندو فرش پر بیٹھ ماں کے پیر دبانے لگا۔ ستونتی دیوی نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور خیالوں میں کھوگئی، جہاں ماضی کی کرچیاں تھیں، کچھ یادیں تھیں جس نے جینے کا سہارا بھی دیا تھا اور جینا محال بھی کررکھا تھا۔
آنند نے دولت کی ریل پیل میں ہوش سنبھالا تھا۔ دادا دادی کے لاڈ پیار اور گھر میں پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ نٹ کھٹ اور خود سر ہوگیا تھا۔ نندو اس کے دو سال بعد ننیہال میں پیدا ہوا تھا۔ ستونتی کا میکابھی خوشحال تھا، وہ اکلوتی بہن تھی کئی بھائیوں کی سب سے بڑی۔ اس لیے آنند کو ننیہال والوں نے اپنے یہاں روک لیا تھا۔ دوسری وجہ نندو کا چھوٹا ہونا بھی تھا۔ آنند کی پرورش ناز و نعمت میں ہوئی لیکن پڑھائی لکھائی میں اس کا من نہیںلگتا۔ چودھری کشوری لال نے اسے دسویں تک زبردستی پڑھایا تو ضرور لیکن اس کے بعد پڑھائی کا جوا اس نے اتار پھینکا اور زمین کی دیکھ ریکھ میں لگ گیا۔ چاپلوس عملہ اور گاؤں میں زمیندار کا بیٹا، حرکتیں بڑھتی گئیں۔ لیکن مخالفت کی کسے ہمت تھی؟ ستونتی دیوی وہ دن یاد کرکے آج بھی افسردہ ہوجاتی ہے، جب منشی کا بیٹا آنند کو سہارا دے کر رات گئے گھر لایا تھا۔ چودھری جی نے تو تیسرے ہی دن اس کی سگائی کا انتظام کرلیا تھا۔ ان کی منطق تھی کہ گھر گرہستی میں لگ جائے تو عادت ٹھیک ہوجائے گی، مگر آنند کی بری عادتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔
ادھر نندو نے شہر میں اپنی پڑھائی پوری کی۔ گھر واپس لوٹا تو بڑے بھائی کے چال ڈھال اسے پسند نہ آئے۔ ایک دن ٹوکا تو بھائی پڑوسی بن بیٹھے۔ خوب بک جھک ہوئی۔ باپ دادا کی عزت کی دہائی نکلی۔ من مٹاؤ نے ایک دوسرے کو مخالف بنادیا۔ نندو پڑھا لکھا تھا، حالات کے ساتھ جینے کی صلاحیت رکھنے والا۔ اس نے چودھری جی سے آگیا لے کر شہر میں ملازمت کرلی۔ چودھری جی نے جب آنند کو اپنے ہاتھ سے باہر پایا اور اس کی حرکتیں بدنامی کا سبب بننے لگیں تو پریشان رہنے لگے اور قبل از وقت ضعیف ہوگئے۔ کئی طرح کی بیماریوں نے آدبوچا تھا۔ لیکن مرتے مرتے دونوں بیٹوں کی جائیدادیں الگ کردیں اور ستونتی دیوی کو آنند کا خیال رکھنے کی تاکید کرگئے۔
چودھر کشوری لال کے جاتے ہی آنند کو جیسے گاؤں کی بادشاہت مل گئی۔ جس طرح کی عادتیں تھیں، ویسے ہی دوست ملے۔ بڑی حویلی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نندو کا حصہ اسے دینے کا فرمان چودھری جی دے کر گئے تھے۔ لیکن آنند ستونتی دیوی کو مجبور کرنے لگا کہ وہ نندو سے حویلی دلوادے۔ نندو ماں کا بڑا فرماں بردار تھا اور اس حویلی میں خوش رہنا اس کے لیے مشکل بھی تھا۔ حالانکہ نندو آنند کو کچھ بھی دینے کے قابل نہیں جانتا تھا لیکن ماں کے حکم کے سامنے اس نے اپنی گردن خم کردی اور اپنا حصہ بھی آنند کو سونپ دیا۔ سڑک کے دوسرے کنارے اپنی زمین خرید کر اس نے ایک خوبصورت مکان الگ بنالیا۔ شہر سے اس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ چودھری جی کے حکم کی تعمیل میں ماں آنند کے یہاں تھی۔ دونوں بھائیوں کی خلش ندی کے دو پاٹ تھے اور ماں کی محبت آبِ رواں۔ رفتہ رفتہ بڑی حویلی کا رنگ روغن پھیکا پڑنے لگا۔ آنند نے گزارے کے لیے زمین فروخت کرنی شروع کردی۔ اوپر سے اس کی گندی عادتیں، بیچنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ستونتی دیوی جب بھی اسے ٹوکتی آنند اس کی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ستونتی دیوی اپنے شوہر کے وچن اور مادری ممتا سے مجبور تھی اور آنند اس جذبۂ محبت کو کمزوری اور بڑھاپے کا سہارا مان کر موقع بے موقع انہیں ستایا کرتا۔ نندو جب بھی گاؤں آتا اپنی ماں کے بارے میں لوگوں سے سنتا۔ لیکن ستونتی اس کے سامنے آنند کی تعریف کے پل باندھ دیتی تو وہ کسمسا کر رہ جاتا۔ اسے آنند سے جلن ہونے لگتی مگر یہ سوچ کر کہ ماں خوش ہے، خاموش رہ جاتا۔ ستونتی دیوی کی بے عزتی اور بسا اوقات مار پیٹ کے چرچے اب حویلی سے باہر بھی ہونے لگے تھے۔ جتنے منھ اتنی باتیں۔ لوگوں نے یہاں تک بتایا کہ آنند بابو اب نندو کا نام لے کر بھی ستونتی کو ستایا کرتا ہے۔ نندو اس بار فیصلے کے موڈ میں تھا، سیدھا حویلی پہنچا تو اس کے حواس اڑ گئے۔ شام کا وقت تھا۔ آنند نشے میں دھت اپنی پتنی سے شراب کے لیے زیور مانگ رہا تھا اور ماں بیچ بچاؤ میں گالیاں کھا رہی تھی۔ نندو سے رہا نہیں گیا۔ اس نے ماں کو قسم دے کر اسی وقت اپنے ساتھ کرلیا۔ آنند کو ٹوکنے پر اسے بھی گالیاں کھانی پڑیں۔ پرانے زخم تازہ ہو اٹھے لیکن ماں کے منع کرنے پر وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
برس بیتے آنند اب کھوکھلا ہوچکا تھا۔ بچی کھچی زمین پر اس کے بیٹے کھیتی کرتے اور وہ بیمار بستر پر کھانستا رہتا۔ کھانے کو دو جون روٹی نہیں تھی، علاج کہاں سے کراتے۔ یہ بات نندو سے چھپی ہوئی نہیں تھی کہ ماں دوسرے ذرائع سے اس کا علاج لگاتار کرارہی تھی۔ لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ دوائیں لگاتار کھانے، اچھی غذا اور آرام سے آنند ٹھیک ہوسکتا ہے۔ دوائیں تو کوئی دے سکتا تھا، لیکن مضطرب انسان کو آرام دینا کس کے بس میں ہے؟ اب تو آنند مستقل طور پر بسترِ مرض پر تھے۔ ستونتی جب بھی اس سے ملنے جاتی سوائے جھڑکی اور نندو کی شکایت کے کچھ ہاتھ نہ آتا۔ لیکن وہ ماں تھی جس نے مہینوں اسے اپنے شکم میں رکھا تھا اور سالوں اپنی چھاتیوں سے سیراب کیا تھا۔ آج بھی جب رات کے سناٹے میں صرف اس کی کھانسی جاگ رہی تھی ستونتی دیوی کو بھلا نیند کیسے آجاتی۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ نندو نے اسے بہت سکھ دے رکھا تھا۔ ابھی آنند کے ساتھ بتائے ماضی کو یاد کررہی تھی تو نندو اس کے چرن امرت کا سیون کررہاتھا۔
اب چاندنی نکھر چکی تھی۔ شاید بادلوں کے ٹکڑے دور چلے گئے تھے۔ پرانی حویلی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ بیمار، کمزور لیکن ثابت کھڑی ہوئی۔ اچانک ستونتی دیوی اٹھ کھڑی ہوئی اور تیز تیز قدموں سے نیچے اترتی ہوئی صحن میں آگئی۔ نندو بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ وہ آنگن کا دروازہ کھول کر سڑک پر چل پڑی۔ پرانی حویلی کا چوڑا پاٹ دار پھاٹک منھ پھاڑے کھلا پڑا تھا۔ اندر ایک دو کتے پیر پھیلائے سورہے تھے جو آہٹ پاتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے لیکن کسی نے بھونکنا مناسب نہیں سمجھا۔ نندو پھاٹک تک آکر سٹپٹا گیا اور وہیں پھاٹک پر کھڑا ہوکر ماں کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا۔
لالٹین کی مدھم روشنی بارہ دری میں پھیلے اندھیرے سے جنگ کررہی تھی۔ کمرے میں ایک عجیب طرح کی باس پھیلی ہوئی تھی۔ ستونتی دیوی نے آگے بڑھ کر آنند کے کلیجے پر ہاتھ رکھا۔ ابھی آنند کے منھ پر لگے خون کے دھبے تازہ تھے۔ وہ اندر تک سہم گئی۔ گھر کے باقی افراد شاید تھک کر سوچکے تھے۔ رات کا آخری پہر تھا۔ جب کچھ دیر ماں واپس نہیں آئی تو نندو کو تشویش ہوئی۔ اس نے کمرے کے اندر جھانکا۔ آنند کا سر ماں کی گود میں تھا اور ماں اس کے چہرے کو پونچھ رہی تھی۔ اس کے تو آنسو نکل آئے۔ وہ بے چین ہو اٹھا۔
صبح سویرے نور کے تڑکے گاؤں کے لوگ جاگ جاتے ہیں۔ بڑی حویلی کے سامنے بگھی سے نند کشور کو اترتے ہوئے دیکھ کر گاؤں والے چونکتے ہیں۔ لوگوں کو استعجاب کے عالم میں چھوڑ کر وہ سیدھے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ پرانی حویلی کے تمام افراد آنند کے کمرے میں موجود ہیں۔ ماحول پوری طرح افسردہ ہے۔ سبھی خاموش ایک دوسرے کا منھ تک رہے ہیں۔ نندو وہاں پہنچتے ہیں تو سب کے سب حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ نندو کی آواز ابھرتی ہے۔
’’بھائی جی چلئے! بگھی تیار ہے اور ٹرین کا سمئے ہوچکا ہے۔ میں نے شہر کے بڑے ڈاکٹر سے بات بھی کرلی ہے اور ہاں میّا بھی ساتھ چل رہی ہے تمہارے۔ تم ٹھیک ہو جاؤگے بھائی جی، پھر ہم سب ماں کے ساتھ اکٹھے رہیں گے۔‘‘
آنند کے آنسو رواں ہوگئے اور ماں نے آنکھوں میں اتر آئے موتی آنچل میں چن لیے۔