بے داغ

مہر رحمن، ایوت محل

جنازہ ہجوم کے کاندھوں پر لے جایا جارہا تھا۔ لوگ آتے کاندھا دیتے اور پیچھے کو بڑھ جاتے۔ وہ سبھی کی توجہ کا مرکز تھا۔ شروع سے آخر تک کاندھا دیے چل رہا تھا۔ کاندھا بدلنے والے کو ہاتھ ہلا کر دور کردیتا۔ افسردہ صورت، سرخ آنکھیں، بے ترتیب لباس، الجھے بال اور پسینہ اور آنسوؤں سے دھلا چہرہ۔ گویا دنیا و ما فیہا سے بے نیاز۔

قبرستان کے طویل راستے میں کچھ بزرگوں اور احباب نے اسے باز رکھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ عزیز شناسا اور کچھ اجنبی ارادتاً درمیان میں آئے۔ لیکن کسی کا خیال نہ تھا اسے۔ تدفین کے وقت تک وہ خاموش تھا۔ اس کے چہرہ پر افسردگی کے سائے اور گہرے ہوتے جارہے تھے۔ اعزّہ تو اس کے درد کی گہرائی سے واقف تھے۔ لیکن دیگر لوگوں کے لیے اس کے درد کی گہرائی دیدنی تھی۔ اس کی دگرگوں حالت کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کرچکے تھے کہ متوفیہ سے اس کا کیا رشتہ ہوگا۔ ایسی بے چینی، ایسی افسردگی، ایسی بے خودی اسی شخص کا مقدر ہوتی ہے جو برسوں سے متوفیہ سے ایک اٹوٹ رشتہ میں بندھا ہوگا۔

بے داغ کفن میں لپٹی ایک بے جان ہستی سے والہانہ محبت کا اظہار، ایسی بے چینی اور اس پر ایک طویل خاموشی، وہاں موجود سبھی کے لیے ایک معمہ تھی۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت لوگوں کے ہاتھ کانپ گئے۔ وہ چیخ ہی ایسی دلخراش تھی۔ وہ دیوانہ قبر تک بڑھ آیا۔ ناقابلِ فہم، بھرائی آواز بمشکل کچھ لوگ اس کا جملہ سمجھ پائے۔ ’’شانو … شانو مجھے معاف کردینا۔‘‘

وہ جواب تک خاموش، افسردہ، نڈھال تھا۔ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا اور سب ہی کو آبدیدہ کرگیا۔ تدفین اور دعا کے خاتمے پر سب لوٹنے لگے۔ لیکن وہ ساکت اور بے خبر تھا۔ ایک افسردہ نوجوان نے قریب آکر اسے جھنجھوڑا ’’بھائی صاحب! آئیے واپس چلیں، آپ کی شانو… ہماری شانو باجی اب نہیں۔‘‘ اور وہ بھی روپڑا۔

آواز پر وہ چونکا : ’’نہیں نہیں ، وہ اکیلی ، اسے تنہا کیسے چھوڑوں وہ مجھے آوازیں دے گی!!‘‘

ایک بزرگ اس نوجوان کو اشارہ سے کچھ سمجھاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ نوجوان بھی سر جھکائے ان کے ساتھ ہولیا۔

قبرستان سے لوٹتے ہوئے لوگوں کی گفتگو کا موضوع وہی تھا۔ ’’بے چارہ صدمہ سے جان ہی نہ دے دے۔‘‘،’’ میں تو سمجھتا ہوں وہ بھی زندگی سے عاجز ہے۔‘‘ ، ’’نہیں بھائی ایسا نہ کہیں اس کے دو معصوم بچے ہیں، ماں کے سایہ سے تو محروم ہوگئے۔‘‘ وہی نوجوان رنجیدہ سا بولا۔

کسی کی آواز آئی: ’’یہ بچوں کے ماموں ہیں۔ کیا بیت رہی ہوگی ان پر بھی۔ بہن کا غم، بہنوئی کی حالت، بھانجوں کی فکر۔‘‘

ادھر قبرستان میں اس تازہ قبر پر نم دیدہ وہ اب بھی سرگوشیاں کررہا تھا: ’’شانو! یہ سب کیا ہوگیا؟ تم نے ساری زندگی مصیبتیں اٹھائیں۔ دکھ جھیلے، میں مجرم ہوں تمہارا لیکن … لیکن اتنی بڑی سزا تم نے کیوں دے دی مجھے…؟ میں … میں خدا کی قسم تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔‘‘

ایک ہاتھ اس کے کاندھے پر تھا۔ یہ شانو کا بھائی وہی غمگین افسردہ نوجوان، اسے لینے آیا تھا۔ اور عزیز بلک پڑا: ’’شانو ! میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ زیادتی کی وہ سب برداشت کرتی رہی۔ میرے بغیر جینے اور مجھ سے الگ رہنے کاتصور بھی اس کے لیے محال تھا۔ اب وہ تنہا… یہاں قبر کی تاریکیوں سے ہراساں ہوگی۔ وہ … وہ سوئی ہے۔ جاگے گی تو ڈر جائے گی… مجھے … مجھے آواز دے گی! نہیں میں اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ عزیز اپنا چہرہ چھپائے قبر پر جھک پڑا۔

اور جب اسے ہوش آیا تو وہ بستر پر دراز تھا دونوں بچے قریب بیٹھے تھے۔ معصوم نشی بول رہی تھی: ’’ابو! امی کہاں ہیں… آپ انھیں کہاں چھوڑ آئے؟ وہ ساتھ کیوں نہیں آئیں آپ کے …؟ ماموں جان بھی واپس آگئے… بتائیے نا امی کہاں ہیں… وہ اکیلی ڈرتی ہوں گی نا…؟‘‘ فیصل بڑے لڑکے نے اسے لپٹا لیا۔ خود اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔’’نہیں نشی!امی کو اب کچھ نہیں ہوگا۔ وہ تنہائی سے ڈریں گی بھی نہیں۔ اب انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘ کتنی سچی تھی فیصل کی بات…؟

عزیز خاموش تھا۔ فیصل کچھ کہہ رہا تھا اس لیے بھی اور سچ کہہ رہا تھا اس لیے بھی۔ اس کی نظریں فیصل سے چار ہوئیں۔ وہ خود کو چور محسوس کرنے لگا۔ ابھی کچھ دنوں سے فیصل ماں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو کچھ حد تک سمجھنے لگا تھا۔ اسے یاد آیا اس نے فیصل کی آنکھوں میں اپنی ماں کی بے چارگی پر ترحم اور اس کے لیے شدید نفرت کی پرچھائیاں دیکھی تھیں۔

اسے وہ دن یاد آیا جب فیصل نے اپنی ماں پر اٹھے ہوئے اس کے ہاتھ کو اپنی مضبوط گرفت میں لے کر جھٹک دیا تھا۔ اس کی یہ حرکت قطعاً غیر ارادی تھی۔ وہ کچھ بولا نہ تھا۔ دس بارہ سال کا فیصل بول بھی کیا سکتاتھا۔ لیکن اس کی گرفت، اس کے غصہ کی باڑھ کو فیصل نے کتنی قوت سے روک لیا تھا۔

فیصل نشی کا ہاتھ تھامے دوسرے کمرے میں لے گیا۔ کتنا مکروہ تھا یادوں کے آئینہ میں عزیز کا چہرہ۔ کیسی باتیں تھیں؟ کیسی یادیں تھیں؟ کتنی تلخ یادیں؟

شانو کی امی نے کھنکھار کر اسے متوجہ کیا: ’’یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے میاں؟ بچوں کا تو کچھ خیال کرو۔‘‘

وہ سسک پڑا: ’’میں … میں کیا کروں… میں مجرم ہوں… میں گنہ گار ہوں… میری زیادتیاں، میرا ظلم شانو کی موت کا سبب بن گیا!‘‘ امی کی سسکیاں گونج اٹھیں: ’’ایسا نہیں سوچتے میاں… ایسا نہیں کہتے… ہونی ہوکر رہتی ہے۔ یہی ہمارا مقدر تھا۔‘‘ صبر کی سل چھاتی پر رکھے وہ اپنا فرض ادا کرتی رہیں۔ اب زیادہ دیر وہاں رکنا ان کے بس میں بھی نہ تھا۔

وہ تنہا رہ گیا۔ خلاؤں میں نظریں گاڑے کچھ سوچتا رہا۔ شانو کی آپا داخل ہوئیں۔ آپا۔ ایک ملازمہ لیکن سب کی آپا۔ افراد خانہ کے لیے وہ آپا تھیں۔ ملازمہ کبھی رہی ہوں گی لیکن اب تو سب کی مہرن آپا۔ سب بچوں بوڑھوں کی آپا۔ ایک بوسیدہ سا لفافہ انھوں نے عزیز کی طرف بڑھایا: ’’یہ لو میاں کچھ دن پہلے بٹیا نے یہ مجھے رکھنے کو دیا تھا اپنے پاس۔ اور تاکید کی تھی کہ وقت آنے پر تمھیں دوں۔ وہ روپڑیں۔ میرے پوچھنے پر کہ کب … کون سا وقت… بٹیا نے ہنس کر کہا تھا وقت آئے گا تو تم خود سمجھ جاؤ گی… خدا کی مار مجھ نگوڑی پر، رکھ لیا اور بھول گئی۔ یہ … یہ سب کیا ہوگیا میاں…! بٹیا بچوں کو بھی بھول گئیں۔ وہ تو کہتی تھیں ان کے لیے ملک الموت سے بھی بھیک مانگ لوں گی وقت کی۔ انھیں پڑھاؤں گی خوب بڑا اچھا انسان بناؤں گی۔ اس سے آگے کیا کیا کہہ گئیں ان کے آنسو اور لڑکھڑاتی آواز میں کچھ نہ سمجھ سکا عزیز۔ آپا روتی بلکتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔

عزیز نے بے چینی سے لفافہ چاک کیا کچھ خطوط پھسل کر فرش پر پھیل گئے۔ اس نے انھیں جمع کیا۔ تحریر پر نظر پڑتے ہی گویا اس کے کھڑے ہونے کی قوت ختم ہوگئی۔ یہ عامر کے خطوط تھے۔ عامر جس کے بارے میں اس نے نہ جانے کیا کیا سوچا تھا۔

لرزتے ہاتھوں سے خط کھول کر نظر ڈالی۔

پیاری باجی! آپ کی ذات سے جو شفقت اور محبت مجھے ملی ہے۔ میں بد دماغ ہوچلا ہوں۔ اپنی قسمت پر نازاں ہوں۔ وہ آگے نہ پڑھ سکا۔

دوسرا خط اس کے ہاتھوں میں تھا۔ سچ باجی! میں ازل سے والدین کے پیار سے محروم آپ کی ذات میں سب کچھ پاگیا۔ اور حسرتؔ کا یہ مصرع میرے لیے بامعنی ہوگیا۔

وہ کیوں نا خوبیٔ قسمت پہ اپنی ناز کرے

تیسرے خط کو پڑھتے ہوئے وہ بین السطور کے مفہوم کو پاتے ہی لرز اٹھا۔

باجی! شفیق اور محترم باجی! یہ آپ نے کیا لکھ دیا… میں آپ کے گھر آنا ترک کردوں۔ مجھ سے کون سی غلطی سرزد ہوئی۔ کس جرم کی پاداش میں مجھے ٹھکرایا جارہا ہے۔ میری محرومیوں سے بھری زندگی میں آپ کی ممتا، آپ کی شفقت سے مجھے کیوں محروم کیا جارہا ہے۔ کیسی ہمت اور تقویت ملتی تھی مجھ یتیم کو آپ کی مہربان آنکھوں سے۔ آپ کے روبرو مجھے کبھی کسی جان لیوا احساس نے اتنا بے بس نہیں کیا۔ آپ سب سمجھتی ہیں۔ مگر بھائی صاحب نہیں سمجھتے۔ اگر وہ سمجھے تو کچھ اور سمجھے۔ میرے خدا! کتنا اذیت ناک … ! کتنا بھیانک … ! اف باجی!

خط اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا۔ جسے جھک کر اٹھانے کی قوت نہ تھی اس میں۔ وہ زمین پر کھڑا بھی کہا ںتھا۔ وہ تو خود کو اتھاہ پستیوں میں گرتا محسوس کررہا تھا۔

اب مظلوم شانو کا خط … میری زندگی! عامر کے چند خطوط رکھ چھوڑے ہیں۔ عورت خواہ کتنی ہی کمزور ہو … بے بس ہی تصور کی جائے… اس کا صبر، اس کی قوت برداشت ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی طاقت ظلم اور زیادتی برداشت کرنے، غلط فہمیوں کا ہدف بننے اور نا انصافی اور حق تلفی پر بھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لانے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہی طاقت اسے عظیم رفعتوں سے آشنا کرتی ہے۔ اور عورت کی انا جب مجروح ہوجاتی ہے تو وہ زندہ لاش بن جاتی ہے۔ عامر میاں سے آپ بدگمان تھے، جبکہ وہ مجھے فیصل کی طرح عزیز تھے۔ میرے غم گسار بھائی تھے۔ آپ کے احساسات سے آگاہ ہوتے ہی میں خود کشی کے گناہِ عظیم کی مرتکب ہوسکتی تھی لیکن میں نے فیصلہ اپنے معبود پر چھوڑ دیا۔ اور خود کو تقدیر کے حوالے کردیا۔

اس سے آگے عزیز پڑھ نہ سکا۔ رگوں میں دوڑتا لہو آنکھوں سے بہہ نکلا۔ میرے خدا! اس نے سر تھام لیا… واقعی وہ پستیوںمیں گرا جارہا تھا۔ گہری اور گہری! عامر کیا سوچتا ہوگا… شانو نے کیا سوچا ہوگا… کتنی بے بس تھی… کتنی مظلوم تھی وہ … یہ کیسا عذاب ہے… کیسی پستی ہے جو اب اس کا مقدر ہوگئی ہے۔ یہ کیسا دوزح ہے جس میں اسے زندگی بھر جلنا ہے… جھلسنا ہے… وہ سوچ رہا تھا یہ وہ آگ تھی جس میں جل کر شانو پاکیزہ اور بے داغ نکل آئی۔ اور اسی آگ نے اس کے جسم کو داغ دار اور روح کو زخموں سے چور کردیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146