وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ (النساء: ۴۴)
’’ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا، اسی کے لیے بھیجا کہ اللہ کے اذن کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
یعنی ہر رسول پیروی اور اطاعت ہی کے لیے بھیجا گیا تھا، مگر یہ اطاعت کسی بھی رسول کا ذاتی استحقاق نہ تھی، بلکہ اللہ کے اذن کی بنا پر اور اس کے تحت تھی۔ اس اصولی حقیقت کا یہ صریح تقاضا ہوگا کہ ہر نبی کو نبی تسلیم کرنا جس طرح ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ عملی پیروی خاص اسی ایک نبی کی کی جائے جس کا اللہ کا اذان، تعین کررہا ہو، اور اس پیروی پر دل سے آمادہ ہونے میں کسی اور نبی کی شخصی عقیدت ہرگز نہ آڑے آنے پائے۔
کہا جاسکتا ہے کہ جب سارے انبیا کے لائے ہوئے دین اصول و مبادی میں ایک ہی تھے تو ان سب کی اطاعتیں بھی دراصل ایک ہی حیثیت کی ہوں گی اور ان کے درمیان اس طرح کی تفریق کوئی معقول بات نہ ہوگی، فلاں نبی کی پیروی تو برحق اور عنداللہ مقبول ہے اور فلاں کی خلافِ حق اور نامقبول۔ اس لیے کسی ایک ہی نبی کی پیروی کو لازمی اور برحق قرار دینا صحیح نہیں ہوسکتا۔ یہ بات بظاہر خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے، مگر فی الواقع اس میں کوئی وزن نہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ دین جو مختلف انبیا کے ذریعے مختلف اوقات میں نوعِ انسانت تک پہنچ رہا ہے، اپنے اصول و مبادی میں ہمیشہ یکساں رہنے کے باوجود تفصیلات میں مختلف رہا ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر ایک وقت میں مکمل پیروی ایک ہی نبی اور ایک ہی شریعت کی ہوسکتی ہے۔