انسان ساری زندگی بہت ساری غلط فہمیوں میں مبتلا رہتا ہے اور بعض غلط فہمیاں اسے جنت سے دور کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان غلط فہمیوں میں ایک غلط فہمی جس میں آج کی مسلمان خواتین مبتلا ہیں والدین کے تعلق سے ہے۔ خواتین عام طور سے یہ تصور کرتی ہیں کہ شادی کے بعد مائیکے کے سلسلے میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ مائیکے سے اپنا تعلق تیوہاروں اور عید و بقرعید، شادی بیاہ اور موت مٹی تک کا ہی خیال کرتی ہیں۔ وہ والدین کے مسائل (خواہ وہ کسی بھی قسم کے ہوں) اور ان کے سکھ دکھ سے اپنے آپ کو لاتعلق کرلیتی ہیں۔ اس ذہن سے کہ والدین کی ذمہ داری (ہر قسم کی) صرف بیٹوں اور بہوؤں کی ہے۔ جبکہ قرآن میں خدا کے بعد والدین کا حق ادا کرنے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے، ان کا شکریہ ادا کرنے، عاجزی کے ساتھ جھک کر رہنے، انھیں ہونہہتک نہ کہنے، ان کے لیے خدا سے رحم کی درخواست کرنے، مغفرت طلب کرنے کی واضح تلقین ملتی ہے۔ ادھر احادیث میں بھی والدین کو ہی اولاد کی جنت و دوزخ قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کی نافرمانی کو حرام گردانا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور محبت بھری نگاہ ڈالنے پر حج مبرور کے برابر اجرکی واضح روایات ملتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی لڑکیوںکو والدین کے حقوق اور حسن سلوک سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا ہے۔ جس طرح اہلِ ایمان سے مراد مرد و خواتین دونوں یکساں ہیں اسی طرح اولاد سے مراد بیٹے اور بیٹیاں دونوں یکساں ہیں۔ بے شک کفالت اور معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد (بیٹے) پر ڈالا گیا ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ لڑکیاں خوشحالی کے باوجود والدین پر خرچ نہ کریں، ہمدردی و غم گساری، حسن سلوک ، محبت اور خدمت سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے لیں (یہ کہہ کر کہ ہم خود دوسروں کے دست نگر ہیں)۔ یقینا یہ ایک غلط فہمی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو نعمت عظمی سمجھ کر ان کی قدر کرتے ہوئے، محبت، حسن سلوک اور خدمت کے مواقع تلاش کرتے ہوئے اپنی آخرت بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لعنت ہے اس پر جو والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں نہ جائے۔