’’شاہد! کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’نماز پڑھنے۔‘‘
’’ان کو بھی لے کر جاؤنا۔‘‘
’’کون ہیں یہ؟‘‘
’’یہ بھی اسی محلے کے رہنے والے ہیں۔ ان کے نام ہارون، عامر، راشد، آصف، ہاشم اور صابر ہیں۔ ہٹے کٹے خوبصورت نوجوان ہیں، لیکن انھیں گھومنے پھرنے میں مزا آتا ہے۔ تعلیم ترک کرکے یہ اسی طرح لفٹ رائٹ کرتے رہتے ہیں، کبھی جی چاہا تو کوئی کام کاج کرلیا اور بس۔‘‘
’’گھبراؤ مت میرے دوست! ایک وقت آئے گا جب ان کو کہنا نہیں پڑے گا۔ یہ خود چلیں گے اور ہم سے بھی چار قدم آگے۔‘‘
’’کیا؟ کیا ایسا کبھی ہوگا؟‘‘
’’ہاں میرے دوست ایسا ہوگا۔‘‘
’’کب؟ کب ہوگا ایسا؟‘‘
’’ہاں! میرے دوست یہ اس وقت ہوگا، جب ہم، ہاں ہم خود نمازی بن جائیں گے۔ ہاں نمازی، جب ہم خود کو خدا کے سامنے یکسر سپرد کردیں گے۔ جب ہم اپنے بیچ کی مسلکی خلیج کو پاٹ کر صرف دستورِ حیات (قرآنِ مجید) کی بنیاد پر ایک ہو جائیں گے۔ اور اس مسلکی اختلاف کو لے کر آپس میں دست و گریباں نہیں ہوں گے۔ جب ہم ان کو اپنی زبان سے نہیں، اپنے ہاتھ سے نہیں، اپنی تقریر سے نہیں، اپنی تحریر سے نہیں…ہاں صرف ایک چیز سے … اپنے عمل سے ان کو کہیں گے کہ چلو نماز پڑھنے، چلو خدا کی عبادت کرنے، تو یہ چلیں گے اور ایسا چلیں گے کہ کوئی انھیں روک نہیں سکے گا۔‘‘