نا شناسا بن کے میری قدر افزائی نہ کر
میرے خوابوں کو سپردِ ناشناسائی نہ کر
بن کے اپنا، دعوتِ بیچارگی مجھ کو نہ دے
حوصلہ دے مجھ کو میرے غم کی رسوائی نہ کر
اور کچھ دے دے مجھے جرمِ محبت کی سزا
زندگی بھر کو اسیرِ دامِ تنہائی نہ کر
موڑ سکتا ہے اگر رخ موڑ دے حالات کا
اپنی شہرت کے لیے ہنگامہ آرائی نہ کر
تیرے دامن میں تو سب کچھ ہے سحر بھی پھول بھی
اپنی جانب دیکھ فکرِ کوہ پیمائی نہ کر
ایک در کافی ہے نیّرؔ سر جھکانے کے لیے
ہر قدم، ہر آستانے پر جبیں سائی نہ کر