[ترکی کے دورِ جدید کے عظیم طنز نگار عزیز نے سِن ۱۹۱۵ء میں ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں استنبول آگئے۔ اب تک ان کی ساٹھ سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، طنز و مزاح پر انہیں متعدد عالمی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کی کہانیاں دنیا کی کم از کم چوبیس زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ شائع ہونے والی کپانی ان کے فن کا خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ ان حکمرانوں کی کہانی ہے جنہیں اپنے عوام کی تکالیف کا احساس نہیں اور عوام کی بھی جو چپ چاپ ظلم سہتے اور احتجاج نہیں کرتے۔]
کسی زمانے میں کرئہ ارض کے ایک حصہ میں ایسا ملک آباد تھا جس کا ذکر آج نہ جغرافیے کی کسی کتاب میں ملتا ہے نہ تاریخ میں۔ سنتے ہیں ایک وقت ایسا آیا جب دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کے تمام باشندوں کی جسمانی ساخت میں چند نمایاں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ پہلے تو لوگوں کے سر پچکنے شروع ہوئے اور پچکتے پچکتے کندھوں کے درمیان اتنے دھنس گئے کہ گردنیں بالکل ناپید ہوگئیں۔ پھر ہر شخص کی کمر میں کبڑا پن نمودار ہوا جس نے بڑھتے بڑھتے ساری قوم کی کمریں دوہری کرکے رکھ دیں۔
بالآخر لوگوں کے لیے قدم اٹھا کر چلنا دوبھر ہوگیا اور وہ زمین پر پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلنے لگے۔ دیکھنے والوں کو یوں لگتا جیسے ملک کی ساری آبادی کسی غیر معمولی بوجھ تلے دبی جارہی ہے اور لوگوں کے پاؤں بھاری بھرکم زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ہر چھوٹے بڑے، مرد اور عورت نے کراہنا شروع کردیا۔ سب کے منہ سے یہ جملے سنائی دیے’’اف! اب نہیں کھینچ سکتے، ہائے اب نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ رفتہ رفتہ یہ جملے آہ و بکا میں بدل گئے۔
جب عوام کے کراہنے کی آوازیں ساتویں آسمان تک سنائی دینے لگیں، تب جاکر حاکم وقت کے کانوں تک بھی یہ درد بھری آوازیں پہنچیں۔ اس نے برہم ہوکر مصاحبوں سے دریافت کیا: ’’ہماری نیند میں خلل ڈالنے والی یہ صدائیں کہاں سے آرہی ہیں؟‘‘
عرض کیا گیا: ’’سرکارِ عالی! یہ آپ کی رعایا کی پکار ہے۔ ابتدا میں جب یہ آوازیں ہمارے کانوں تک پہنچیں تو ہم نے انہیں ہوا کی سرسراہٹ سمجھ کر نظر انداز کردیا مگر جلد ہی سرسراہٹ بھنک میں تبدیل ہوگئی مگر ہم نے پھر بھی کان نہ دھرے۔ جب وہی بھنک بڑھتے بڑھتے شور میں تبدیل ہوگئی تو ہم نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں کہ شاید یوں اس شور سے نجات مل جائے۔ اب بتدریج وہی شور، ہنگامے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اگر حضور اجازت فرمائیں تو ہر فرد کے گلے کے صوتی تار کاٹ دیے جائیں تاکہ لوگوں کی بلند چیخ پکار حضور کو بے آرام نہ کرسکے۔‘‘
حاکم وقت نے ڈانٹ کر کہا ’’ہم قرونِ وسطیٰ کے نہیں، دورِ جدید کے باشندے ہیں۔ تم لوگ گزرے ہوئے کل کی بات نہ کرو کہ آج کا دن آتے ہیں کل کا دن دفن ہوجاتا ہے۔ دقیانوسی علاج تجویز کرنے کے بجائے ملک میں منادی کرادو کہ ساری رعایا دارالحکوم کے بڑے میدان میں جمع ہوجئے تاکہ مابدولت عصرِ جدید کی روایات کے شایانِ شان اپنی رعایا سے خطاب کرسکیں۔‘‘
اگلے روز رعایا میدان میں جمع ہوئی تو حاکم وقت نے پہلی بار عوام کے کندھوں میں دھنسے ہوئے سر اور خمیدہ پشتیں دیکھیں۔ اس نے متعجب ہوکر ہمدردانہ لہجے میں دریافت کیا: ’’بتاؤ تم لوگوں کو کیا تکلیف پیش آرہی ہے؟‘‘
حاضرین نے یک زبان ہوکر وہی جملے دہرائے۔ ’’اب ہم نہیں کھینچ سکتے۔‘‘
حاکم وقت نے رعایا میں سے چند دانشوروں کو قریب بلا کر پوچھا ’’صاف صاف بتاؤ! کیا بات ہے؟ تم لوگ کیا نہیں کھینچ سکتے؟ کیا نہیں اٹھاسکتے؟‘‘
دانشوروں نے جواب دیا: ’’جناب والا! ہم خود سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے پاؤں میں بھاری زنجیریں ڈال دی گئیں ہیں جن کے ناقابل برداشت بوجھ نے ہمیں پاؤں اٹھا کر چلنے سے معذور کردیا ہے۔ یہ پر اسرار زنجیریں دن بدن بھاری ہوتی جارہی ہیں۔ اگر یہی حالت رہی تو تھوڑے ہی عرصے بعد یہ پوری قوم ساکت ہوکر رہ جائے گی۔ ہر شخص انسان نما درخت کی طرح زمین میںگڑا نظرآئے گا۔ حضور، یہ زنجیریں اب اتنی بھاری ہوگئی ہیں کہ لوگوں میں انھیں کھینچنے کی طاقت باقی نہیں رہی۔‘‘
حاکم وقت مسکرا کر بولا ’’اچھا! تو اب سمجھا، یہ لوگ کیا نہیں کھینچ سکتے، مگر تم لوگ ایک دوسرا نعرہ بھی تو لگاتے رہتے ہو، وہ کیا چیز ہے جو تم لوگوں سے اٹھائی نہیں جاتی؟‘‘
’’جنابِ عالی! ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے سرپر ایک پراسرار قسم کا بوجھ لاد دیا گی ہے۔ یہ بوجھ بھی زنجیروں کی طرح روز بروز بھاری ہورہا ہے۔ اسی بوجھ کا اثر ہے کہ ہماری گردنیں کندھوں میں دھنستے دھنستے سرے سے ناپید اور ہماری پشتیں دوہری ہوگئی ہیں۔ عزت مآب! ہم لوگوں سے اب یہ بوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔‘‘
یہ سن کر حاکم وقت رعایا سے یوں گویا ہوا: ’’میرے عزیز ہم وطنو! تم بالکل فکر مت کرو، ہم آج ہی اپنے قابل ترین ماہرین کی ایک کمیٹی مقرر کررہے ہیں جو اس بات کی تفتیش کرے گی کہ تم لوگوں کے پاؤں کی زنجیریں اور تمہارے سروں کا بوجھ کیا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ آتے ہی تم سب معمول کے مطابق دوبارہ وزن اٹھانے اور زنجیریں کھینچنے کے قابل ہوجاؤ گے۔‘‘
عوام کے چہروں پر رونق آگئی۔ سب لوگ خوشی خوشی پاؤں گھسیٹتے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوگئے۔ ادھر حاکم وقت نے اسی روز چالیس منتخب سرکاری ماہر اکٹھے کیے اور ان سے کہا ’’ہماری رعایا جس مشکل سے دوچار ہے اس کا احساس یقینا آپ کو بھی ہوگا۔ اسی قسم کے غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہی مابدولت نے سالہا سال سے تم جیسے ماہرین کی پرورش کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تم ہمارے احسانوں کا پورا نہ سہی تھوڑا سا بدلہ چکا دو۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم لوگ یہ معلوم کرو کہ وہ کون سا پراسرار بوجھ ہے جسے اٹھانے سے میری رعایا عاجز آچکی ہے، اس بوجھ کو ہلکا کرنے کا کوئی حل تجویز کرو، لیکن خبردار! ایسا کوئی حل تجویز نہ کیا جائے، جس سے مابدولت کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ آخر تمہارا اولین فرضـ بھی تو مابدولت کے حقوق کی نگرانی کرنا ہے۔ چلو اب فوراً اپنا کام شروع کردو اور اپنے علم و دانش کی طاقت سے ہماری خواہشوں کے عین مطابق کوئی ایسا حل ڈھونڈ نکالو جس سے ہماری رعایاکایہ شوروغوغا بند ہوجائے۔‘‘
ماہرین نے جواب دیا ’’سرکار! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ ہماری بس ایک درخواست ہے اور وہ یہ کہ آپ ہمیں چالیس دنوں کی مہلت دیں۔ ان چالیس دنوں میں ہمیں چالیس بوریاں کشمش اور بادام کی کھلائی جائیں تاکہ ہمارے دماغ روشن ہوجائیں۔ اکتالیسویں روز ہم حضور کی پسند کے عین مطابق رعایا کے بوجھ کی نوعیت اور اسے کم کرنے کا مناسب حل بتادیں گے۔‘‘
حاکم وقت نے یہ شرط منظور کرتے ہوئے ماہرین کو خبردار کیا ’’یاد رکھو! اگر تمہاری تجویز میری مرضی کے خلاف نکلی تو تم سب کے دو دو ٹکڑے کرکے تم چالیس ماہروں کے اسی ماہر بنادوں گا۔‘‘
اس خیال سے کہ ماہرین اپنا قیمتی وقت خوش گپیوں میں ضائع نہ کردیں، حاکم وقت نے انہیں محل کے بہت بڑے کمرے میں بند کرکے باہر تالا لگوادیا۔ ہر روز کشمش اور بادام کی ایک بوری کمرے میں دھکیل کر کمرے کو دوبارہ تالا لگادیا جاتا۔
ادھر ماہرین، کشمش اور بادام کھاکھا کر بند کمرے میں ہنسی خوشی وقت گزار رہے تھے، ادھر رعایا کی چیخ پکار دوبارہ حاکم وقت کے کانوں تک پہنچنے لگی۔ وہ بے چین ہوکر بند کمرے کی ایک دیوار کے چھوٹے سے سوراخ سے اند رجھانکتا تو سب ماہرین کشمش اور بادام کھانے میں مصروف نظر آتے۔ اس شغل سے فارغ ہوکر وہ قلا بازیاں کھاتے اور من مانے کھیل کھیلنے لگتے۔ حاکم وقت دانت پیس کر دل ہی دل میں کہتا ’’بچو! چالیس روز ختم ہونے دو، اگر تم نے ایک لفظ بھی میری مرضی کے خلاف کہا تو دیکھنا، تمہارے ٹکڑے کرکے کتوں کو نہ کھلا دوں تو مجھے بادشاہ نہ کہنا۔‘‘
آخر اکتالیسویں دن بادشاہ نے ماہرین کو کمرے سے نکالا۔ سب سے بڑا ماہر حاکم وقت سے یوں مخاطب ہوا:
’’جنابِ عالیٍ ہم نے چالیس دن اور چالیس رات کی انتھک محنت اور دماغ سوزی کے بعد رعایا کی اصل تکلیف کا پتا چلا لیا ہے۔ ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اس ملک کے ہر فرد کو جو پراسرار بوجھ تنگ کررہا ہے وہ دراصل اس کے اپنے سائے کا بوجھ ہے۔ لوگوں کا سایہ کسی صورت میں ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، ہر وقت ان کے پاؤں سے چمٹا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آسانی سے قدم نہیں اٹھاسکتے۔ سایہ جس قدر زمین کی طرف کھینچتا ہے، اتنا ہی لوگوں کو اپنی کمر کا بوجھ بھاری محسوس ہوتا ہے۔ یہی وہ ناقابلِ برداشت بوجھ ہے جس کے تلے آپ کی رعایا اپنے آپ کو پستا ہوا محسوس کررہی ہے۔‘‘
حاکم وقت اپنے ماہرین کی تشخیص سن کر بہت خوش ہوا اور ان کے علم و دانش کی بے حد تعریف کی۔ پھر حکم دیا کہ ماہرین کی یہ رائے فوراً ساری رعایا تک پہنچادی جائے اور لوگوں کو مشورہ دیا جائے کہ اگر وہ اس پر اسرار بوجھ سے نجات پانا چاہتے ہیں تو اپنے سائے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جوں توں کرکے سائے کے بغیر زندگی گزرانے کی عادت ڈالیں۔
شاہی حکم فوراً رعایا کو سنایا گیا۔ عوام کے چہروں پر ایک بار پھر رونق کے آثار نمودار ہوگئے۔ اسی روز سے ملک بھر میں انسان اور اس کے سائے کے درمیان ایک لامتناہی جنگ شروع ہوگئی۔ لوگ اپنے سائے سے نجات پانے کے لیے نہایت تیزبھاگتے آخر تھک کر زمین پر گرپڑتے۔ اٹھتے تو سایہ بدستور پاؤں سے چمٹا نظر آتا۔ لاکھ کوشش کے باوجود کوئی شخص اپنے سائے سے تیز نہ بھاگ سکا۔ لوگوں نے تانگے گاڑیوں پر سوار ہوکر اپنے سائے سے دور بھاگ جانے کی بہت کوشش کی، مگر جب منزل مقصود پر پہنچتے، سایہ پھر ساتھ نظر آتا۔ صبح سویرے سوکر اٹھتے تو سایہ مغرب کی طرف ہوتا، چنانچہ لوگ مشرق کی طرف بھاگنا شروع کردیتے اور دوپہر تک بھاگتے رہتے۔ دوپہر کے بعد سایہ ان سے آگے نکل جاتا تو وہ اسے پیچھے چھوڑ کر مغرب کا رخ کرلیتے۔
پاگلوں کی طرح مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق بھاگنے والی اس قوم میں آخر کار چند رہنما نمودار ہوئے۔ یہ ہر روز صبح سویرے عوام کو یوں مخاطب کرتے ’’عزیز ہم وطنو! ہماری نجات مشرق میں ہے۔ آؤ اپنا رخ مشرق کی طرف کریں اور سب مل کر مشرق کو بھاگیں۔‘‘
ان لیڈروں کے خلوص سے متاثر ہوکر عوام مشرق کی طرف بھاگنے لگتے۔ دوپہر کے بعد چند اور لیڈر عوام کو گھیر کر یوں تقریر جھاڑتے ’’بھائیو! ہماری نجات مغرب میں ہے۔ آؤ اپنا رخ مغرب کی جانب موڑیں اور سب مل کر مغرب کو بھاگیں!‘‘
مگر رہنماؤں کے ان مشوروں پر عمل کرتے ہوئے غریب عوام خواہ مشرق کو بھاگتے خواہ مغرب کا رخ کرتے… کسی کو اپنے سائے سے نجات مل سکی نہ سائے کا پر اسرار بوجھ کم ہوا۔ ادھر لیڈروں کے متضاد مشورے شدت اختیار کرتے رہے، یہاں تک کہ ہر صبح، ہر دوپہر اور ہر شام لیڈروں کی آپس میں تکرار ہوتی اور یہ تکرار بھی شدت پکڑتی چلی گئی۔
عرصۂ دراز تک مشرق اور مغرب دونوں اطراف میں نجات کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے باوجود جب لوگوں کے مسائل حل نہ ہوئے تو عوامی رہنماؤں میں سے ایک تیسری جماعت میدان میں آنکلی۔ انھوں نے عوام کو ایک نیا مشورہ دیا ’’ساتھیو! جو لوگ تمہیں مشرق یا مغرب کی راہ دکھاتے ہیں، غدار ہیں۔ ہماری مانوتو نہ مشرق کو بھاگو نہ مغرب کو، تمہاری نجات مشرق اور مغرب کے عین وسط میں ہے۔‘‘
لوگ اب اس مشورے پر عمل پیرا ہونے لگے۔ دوپہر کے قریب جب ان کے سائے گھٹتے گھٹتے ختم ہونے کو آتے، تو وہ خوشی سے چلا اٹھتے ’’آہا! اب ان نامراد سایوں سے نجات ملی کہ ملی۔‘‘ گر بیچاروں کی خوشیاں دیر پاثابت نہ ہوتیں۔ دوپہر گزرے ہی سائے پھر لمبے ہونے لگتے۔ اب لوگ مجبوراً پہلے کی طرح سر پٹ مغرب کی جانب بھاگنے لگے۔ جب کسی کو اپنے سائے سے نجات نہ ملی تو تینوس سیاسی گروہوں کے حامیوں کی آپس میں ہاتھا پائی اور مارکٹائی تک نوبت آگئی۔ عوام نے روز روز کی بک بک جھک جھک سے بیزار ہوکر از سر نو آہ و فغاں شروع کردی ’’اف! اب ہم نہیں کھینچ سکتے، ہائے! اب ہم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘
ہائے وائے کا یہ شور حاکم وقت کے محلوں کی دیواروں سے ٹکرایا ںتو وہ ان صداؤں سے سخت مضطرب ہوا۔ اس نے چلا کر پوچھا : ’’اب یہ کیسا شور و غوغا ہے جو ہماری نیند میں خلل کا باعث بن رہا ہے؟‘‘
حواریوں نے جواب دیا: ’’حضور والا! یہ آپ کی رعایا کی پکار ہے جسے نہ مشرق کو بھاگنے سے اپنے سائے سے نجات ملے ہے نہ مغرب کا رخ کرنے سے اور نہ اپنی اپنی جگہ ساکن کھڑے رہنے سے۔‘‘
حاکم وقت نے اپنے چالیس ماہروں کو پھر اکٹھا کیا اور نہایت برہم ہوکر بولا: ’’کیا مابدولت نے تمہیں سالہا سال سے اسی لیے پالا پوسا کہ تم مشکل میں میرے کام نہ آؤ۔ آج ہم تمہیں اپنے عرلم کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا آخری موقع دیتے ہیں۔ سب سر جوڑ کر کوئی ایسا علاج ڈھونڈو کہ ہماری پیاری رعایا کو ان کے سایوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے تاکہ آئندہ کسی کے منہ سے آواز نہ نکلے اور ہم آرام کی نیند سوسکیں۔‘‘
ماہروں نے جواب دیا ’’حضور کا حکم سر آنکھوں پر، مگر ہماری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ ہمیں مزید چالیس روز کی مہلت دی جائے، ان چالیس دنوں میں ہمیں چالیس بوریاں کشمش اور بادام کھلائے جائیں، تاکہ ہمارے ذہن روشن سے روشن تر ہوجائیں اور ہم اکتالیسویں دن لوگوں کو ان کے سایوں سے نجات حاصل کرنے کاایسا نسخہ تجویز کریں جو حضور والا کی مرضی کے عین مطابق ہو۔‘‘
حاکم وقت نے ماہرین کی شرط منظور کرلی۔ انہیں محل کے ایک بڑے کمرے میں بند کروایا اور باہر سے تالا لگوادیا۔ ہر صبح کمرے میں کشمش اور بادام کی بوریاں بھیج کر دوبارہ تالا لگوادیا جاتا۔ کبھی کبھی حاکم وقت کے جی میں ماہرین کی کارروائی کا جائزہ لینے کا شوق اٹھتا تو وہ چپکے سے تالے کے سوراخ سے جھانکتا۔ ماہرین ہمیشہ کشمش بادام کھاتے دکھائی دیتے یا پھر کھیل کود میں مصروف نظر آتے۔ چالیس روزبعد جب انھیں باہر نکالا گیا تو سب سے بڑے ماہر نے دس بستہ عرض کیا: ’’عزت مآب! چالیس روز کشمش بادام کھاکر ہمارے دماغ اتنے روشن ہوگئے ہیں کہ ہم نے حضور کے فرمان کے عین مطابق اپنے علم کی طاقت سے ایک زبردست طریقہ ڈھونڈنکالا ہے جس سے رعایا اپنے سایوں سے چھٹکارا پاسکتی ہے۔
’’طریقہ بیان کیا جائے!‘‘ حاکم وقت نے حکم دیا۔
بڑے ماہر نے جواب دیا ’’جناب عالی! حضور کو معلوم ہی ہے کہ رات پڑنے پر سائے خود بخود غائب ہوجاتے ہیں، لہٰذا ہماری نا چیز رائے میں لوگوں کو ان کے سائے سے نجات دلانے کے لیے رات کے اندھیرے کا بندوبست کرنا لازمی ہے۔‘‘
حاکم وقت یہ تجویز سن کر بھنا اٹھا اور بولا: ’’کم بختو! دن کی روشنی میں رات کا اندھیرا کیونکر پیدا کروگے؟‘‘
’’جناب! ہم دن کی روشنی کو رات کے اندھیرے میں رنگ دیں گے۔ اس مقصد کے لیے آپ صرف ایک کام کیجیے، ایک ایسی کال کوٹھری تعمیر کروادیجیے جس میں سورج کی ایک کرن بھی داخل نہ ہوسکے۔ رعایا میں سے جو شخص منہ سے فریاد نکال کر حضور کے چین میں مخل ہو اسے اٹھوا کر اس کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے۔ کوٹھری میں داخل ہوتے ہی اسے اپنے سائے سے نجات مل جائے گی اور وہ بوجھ سے آزاد ہوکر چیخنا چلانا بند کردے گا۔‘‘
حاکم وقت نے ماہرین کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک ایسی عظیم الشان کال کوٹھری بنوائی جس میں سوئی کے ناکے کے برابر بھی سوراخ نہ چھوڑا کہ اس سے سورج کی روشنی اندر جاسکے۔ جو شخص آہ فریاد کرتا سنائی دیتا اسے پکڑ کر کال کاٹھری میں ڈال دیا جاتا۔ سائے سے چھٹکارا ملتے ہی ان لوگوں کی چیخ پکار تو درکنار، آواز تک نکلنا بند ہوجاتی۔ اس طرح کوٹھری کے اندر والوں کو تو اپنے سائے سے نجات ملی، مگر جو لوگ باہر تھے وہ صبح ہوتے ہی حسب معمول کراہنا شروع کردیتے۔
آخر کتنے لوگوں کو کال کوٹھری میں ٹھونسا جاسکتا تھا؟ تھوڑے ہی عرصے میں کوٹھری کھچا کھچ بھر گئی۔ حاکم وقت کے حکم پر اسے بڑاکردیا گیا۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ کوٹھری میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہ بچی۔ حاکم وقت نے دوبارہ اس کی توسیع کروادی۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ سارا ملک ایک وسیع و عریض کال کوٹھری میں تبدیل ہوگیا۔
سورج کی روشنی اب صرف ان گنی چنی جگہوں تک پہنچتی جہاں خود حاکم وقت، شاہی محل کے کارندے، درباری اور خاص ماہرین رہائش پذیر تھے۔
ان کے علاوہ رعایا کے چند گنے چنے لوگ ابھی تک کال کوٹھری سے باہر تھے مگر انھوں نے کال کوٹھری کے ڈر سے اپنی زبانوں کو تالے لگا رکھے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہوتی۔ ’’اب ہم نہیں کھینچ سکتے یا اب ہم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ کئی موقعوں پر تو بیچارے پوچھ گچھ کے بغیر ہی خود بخود یہ کہتے سنے گئے ’’اب ہم عادی ہوگئے ہیں، اب تو ہم کھینچ بھی سکتے ہیں اور اٹھا بھی سکتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس ملک میں کبھی رعایاکی چیخ پکار اور آہ و فغاں حاکم وقت کے کانوں تک نہ پہنچی اور نہ کبھی اس کی نیند میں خلل آیا۔