اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا:
’’جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ (خدا کی بندی ہم پر رحم کراور) ہمارے بارے میں خدا سے ڈر، کیونکہ ہم تو تیرے ہی ساتھ بندھے ہوئے ہیں، تو ٹھیک رہی تو ہم ٹھیک رہیں گے، اور اگر تو نے غلط روی اختیار کی، تو ہم بھی غلط ہوجائیں گے (اورپھر ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا)۔‘‘
انسان کے سارے اعضاء کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے، مگر کسی کی شخصیت کا حقیقی تعارف اس کی زبان سے ہی ہوتا ہے۔ جب تک کوئی بندہ خاموش رہتا ہے اور زبان نہیں کھولتا اس وقت تک اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔
تا مرد سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
’’جب تک کوئی شخص زبان سے بات نہ کرے اس وقت تک اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔‘‘
کسی آدمی کی شخصیت کے معیار کا تعین اس کی گفتگو سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر زبان نے میٹھے بول بولے تو انسان کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا،جس سے پورے جسم کے اعضاء نے آسودگی پائی۔ اس کے برعکس اگر زبان کا بے جا اور نامناسب استعمال ہوا تو انسان کی پوری شخصیت بدنام ہوئی۔ اگر زبان سے ادا کیے گئے الفاظ زیادہ ہی تلخ ہوئے اور اسے سزا کا حق دار بنادیا تو جسم کے سارے اعضاء کی تکلیف میں پڑجائیں گے۔
اس حدیث کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے زبان کے صحیح استعمال کی تعلیم دی ہے۔ اس زبان سے جہاں ذکر و اذکار، درود شریف اور دوسری زبانی عبادات کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے وہاں اس کے غلط استعمال سے جھوٹ، غیبت، طعن و تشنیع، گالی گلوج جیسے بڑے بڑے گناہ حاصل ہوتے ہیں۔ شیریں کلامی سے بڑے سے بڑے سخت دل کو نرم کرلیا جاتا ہے جبکہ بدکلامی ساز گار ماحول کو بھی تلخ کردیتی ہے۔
مختلف مواقع پر آپ ﷺ نے زبان کے صحیح استعمال کی تاکید کی ہے۔ آپؐ نے ایک طویل حدیث میں حضرت معاذ بن جبلؓ سے نصیحت کی باتیں کرتے ہوئے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا:
’’اے معاذ! اس کو روک کر رکھو… لوگوں کو ان کی زبانوں کی (بری) کمائیاں ہی ان کے چہروں کے بل یا نتھنوں کے بل آگ میں گرائیں گی۔‘‘
اسی طرح جب حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میرے بارے میں آپ کس چیز کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں، تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا کہ: ’’سب سے زیادہ خطرہ اس سے ہے۔‘‘
پس رسول اللہ ﷺ نے زبان کے استعمال میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے تاکہ کوئی غیر ضروری، باعث ضرر اور گناہ کا کلمہ زبان سے نہ نکل جائے۔ اس ضمن میں اللہ کے ذکر کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ جب زبان اکثر اللہ کے ذکر میں مشغول رہے گی تو فضولیات سے بچی رہے گی، اور اللہ کا ذکر تو نورٌ علیٰ نور ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
ولذکر اللّٰہ اکبر۔ (العنکبوت :۴۵)
’’اور لازماً اللہ کا ذکر تو بہت بڑی بات ہے۔‘‘
قرآن مجید میں ہے:
مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید۔ (ق)
’’کوئی شخص جو الفاظ بھی زبان سے بولتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک چاک و چوبند نگراں موجود ہوتا ہے۔‘‘
گویا انسان کی گفتگو کا ریکارڈ ہی اس کا نامۂ اعمال ہے لہٰذا زبان کے استعمال میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کا غلط استعمال نتیجے کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے جبکہ اس کا محتاط استعمال دین اور دنیا کی بھلائیوں کا باعث ہے۔