آم اور خربوزوں کی بہار کا زمانہ تھا۔ دیہات کی گرم اور کھلی ہوا پر بڑا پیار آرہا تھا۔ رات ہوتی اور صاف ستھرے آسمان پر تارے چمک جاتے۔ چاندنی رات میں بچے صحن میں اودھم مچاتے۔ بڑی بوڑھیاں اپنے پرانے قصے لے کر بیٹھ جاتیں اور چھالیوں اور پان کے ٹکڑوں کو اس کلّے سے اس کلّے میں پھرایا کرتیں۔ مجھ جیسی شہر سے سے آنے والی لڑکیاں جمع ہوکر اپنی اپنی سرگزشت سنایا کرتیں اور آم یا خربوزوں کا دور چلتا رہتا۔ ہر وقت دل یہی چاہتا تھا کہ بس ایسی ہی انجمن آرائی رہے اور ہم سب خوش گپیوں میں اس خوشگوار موسم کو گزاردیں۔ جی ہاں! موسم خوشگوار ہی تھا۔ گرمی اور لو سے کیا ہوتا ہے۔ بہت دنوں کے بعد کھلی کھلی فضا، فطری مناظر اور نیا ماحول ملا تھا۔ یہ سب چیزیں کیا موسم کو خوشگوار بنانے کے لیے کم ہیں؟ مگر برا ہو میری نا اہلی کا جس کا احساس میرے بجائے میری امی کو خاص طور سے ایسے اچھے موسم میں ہوا اور انھوں نے مجھے چچی جان کے پاس شہر واپس جانے کا حکم دے دیا۔ میری ساری خوشیوں پر اوس پڑگئی۔ ایسا ماحول اور ایسی سہیلیوں کو چھوڑ کر بھرے موسم میں جانے کا دل کس کا چاہے گا؟ مگر میں مجبور تھی جانے کے لیے کیونکہ مجھے گھر کے بچوں کا خیال رکھنا نہیں آتا تھا اور ابھی جب گھر کے بچوں کے ساتھ یہ حال ہے تو آئندہ زندگی میں کیا کروں گی۔ یہی تو غم تھا امی جان کو اوراس وجہ سے میں چچی جان کے یہاں جانے سے انکا رنہیں کرسکتی تھی۔
چچی جان پورے خاندان میں اپنے بچوں کی تربیت کے لیے مشہور تھیں۔ وہ جس انداز سے اپنے بچوں کو تمیز سکھاتی تھیں، اس پر سارے خاندان کی عورتوں کو رشک آتا تھا۔ سب یہی تمنا کرتیں کہ کاش ان کی لڑکیاں بھی چچی جان کا سلیقہ سیکھ لیں۔ آخر پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ پھوہڑ لڑکی کو آخر کون پوچھتا ہے؟ سلیقہ ہو تو لوگ لڑکی کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہ بوڑھی عورتیں بھی خوب ہیں۔ انہیں فضا اور ماحول کی خوشگواری دیکھ کربھی باتیں کرنے کا خیال نہیں رہتا۔ آخر ان کا دل بھی نہیں گھبراتا ایسے بدمزہ موضوعات پر وقت ضائع کرتے؟ مجھے بڑی کوفت ہورہی تھی امی جان کے فیصلے کو سن کر، مگر بادلِ نخواستہ بوریا بستر باندھ مجھے شہر واپس جانا پڑا۔ چلتے وقت میں نے کیسی حسرت بھری نظر گاؤں پر ڈالی تھی۔ اب بھی یاد آتا ہے تو دل مسوس کر رہ جاتی ہوں۔
میں جب دروازے پر پہنچی تو چچی جان اپنے نصف درجن بچوں کے مقدمے سن رہی تھیں اور فیصلے کررہی تھیں۔
انجم کہہ رہا تھا، بھائی جان آج اسکول نہیں گئے ، انھوں نے جھوٹی عرضی لکھ کر بھیج دی ہے کہ میری طبیعت خراب ہے اور باہر کھیل رہے ہیں۔
نجمہ کہہ رہی تھی: ’’اسماء باجی نے آپ کے بکس سے پیسے چرا کر چاٹ کھا ڈالی ہے۔‘‘
اسماء کہہ رہی تھی ’’امی اس نے بھی تو کل دودھ کی ساری بالائی کھالی تھی، اور آپ نے بیچارے کلّو کو بے قصور مارا تھا۔‘‘
چچی جان پریشان تھی اپنی قسمت کو رو رہی تھیں کہ جتنی ان بچوں کی سدھار کی فکر کرتی ہوں، اتنا ہی بگڑتے جارہے ہیں۔ کیا کروں؟ جھنجھلا کر انھوں نے شکیل کو فوراً اسکول بھیجا اور ماسٹر کو بھی تنبیہ کرادی کہ جھوٹ بولنے پر اس کو سخت سزا دیں۔ ادھر اسماء، نجمہ، انجم سب کی باری باری مرمت ہوئی کہ آئندہ کبھی جھوٹ اور چوری کی حرکت سننے میں نہ آئے۔
میں سوچ رہی تھی کہ کتنی اچھی ہیں چچی جان ان کو اپنے بچوں کی تربیت کا کتنا خیال ہے۔ خاندان والے ان کی تعریف کرتے ہیں تو غلط نہیں کرتے۔ واقعی ان میں یہ ملکہ بھی ہے مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب شام ہی کو شکیل اسکول سے واپس ہوا اور گھر میں داخل ہوتے ہی خبر دی کہ خلیل صاحب ابو کو بلارہے ہیں تو چچی جان نے فرمایا: ’’کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں۔‘‘
حالانکہ چچا جان گھر میں لیٹے آرام کررہے تھے۔ میں نے کہا: ’’چچی جان آپ نے کیاغضب کیا؟ صبح ہی تو جھوٹ بولنے کے لیے تنبیہ کی تھی، اس وقت خود ہی جھوٹ سکھا رہی ہیں۔‘‘
’’نہیں بچی! اس طرح بھی کہیں عادت پڑسکتی ہے؟ اور کروں بھی کیا ان صاحب کے روپے تمہارے چچا جان کے ذمے ہیں۔ روز تقاضے کو آتے ہیں اور اس وقت ممکن نہیں کہاں سے ادا کریں؟‘‘
’’مگر چچی جان کچھ بھی ہو بچہ جھوٹ کو برا کیسے سمجھے گا جب آپ خود اس کو جھوٹ بولنے پر اکسائیں گی۔‘‘
’’ارے بچی! تو بھی نئی نئی باتیں لے بیٹھی، میں کیوں سکھاتی ان کو جھوٹ؟ کیا مجال ہے بھلا جو میں ان کو جھوٹ بولنے دوں۔ یہ تو وقت کی بات ہے۔ کبھی کبھی بغیر اس کے کام بھی تو نہیں چلتا۔‘‘
مجھے خود تو سلیقہ نہ تھا، چچی جان کی مصلحتوں میں کیسے دخل دیتی؟ شاید چچی جان ٹھیک ہی کہتی ہوں۔ میں چپ ہورہی۔ بولتی بھی کیا؟ میں دیکھتی رہی۔ واقعی چچی جان بچوں کے ساتھ دن بھر سرکھپاتی ہیں۔ کوئی لڑکا جھوٹ نہ بولے، چوری نہ کرے، شرارت نہ کرے، کسی سے لڑے نہیں مگر لڑکے تھے کہ ان کی ان سب ہدایتوں کے باوجود ایسی ایسی حرکتیں کرتے تھے کہ اللہ میری توبہ۔ یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر میں بچوں کی اصلاح سے مایوس ہوگئی۔ بھلا یہ شریر بھی کسی کے قابو میں آتے ہیں۔ چاہے جتنی جان دو۔ آخر جب چچی جان جیسی خاتون کا اختیار نہیں چلتا تو پھر میں بیچاری کس شمار قطار میں ہوں۔ بچے میرے قابو میں کب آنے والے ہیں؟ مفت میں میری چھٹیوں کی قربانی ہورہی ہے۔ مجھے رہ رہ کر گاؤں یاد آتا۔ سہیلیوں کی باتیں یاد آتیں اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ کاش! میں اتنی بدسلیقہ نہ ہوتی کہ عین پُر بہار موسم میں امی جان کو میری اصلاح کی ضرورت محسوس ہوتی مگر مجبوری اور بے بسی کے سامنے میری کیا چلتی؟ سوائے اس کے کہ چچی جان سے تربیت کے درس لیتی رہوں اور ساری دلچسپیوں کو بھول جاؤں۔
ایک شام اسماء دو انڈے لے کر آئی۔ ’’امی یہ انڈے ڈربے میں ملے ہیں، دادی اماں کی مرغیوں نے دئیے ہیں۔‘‘
’’لا مجھے دے، آج گھر میں انڈے نہیں تھے۔‘‘ چچی جان نے اسماء کے ہاتھ سے انڈے لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں امی، یہ تو دادی اماں کی مرغیوں کے ہیں۔‘‘ اسماء اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی۔
’’چل بھاگ اپنا کام کر۔‘‘
’’مگر امی میں دادی اماں سے کیا کہوں گی؟‘‘ انھوں نے مجھے ڈربہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔
’’کہہ دینا ایک بھی انڈا نہیں ملا۔‘‘
اسماء سہمی ہوئی چلی گئی اور چچی جان نے احتیاط سے انڈے الماری میں رکھ دیے۔ تھوڑی دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ دادی اماں اسماء کو پوچھتی ہوئی آگئیں۔
’’دلہن، اسماء کدھر گئی؟‘‘
’’یہیں کہیں کھیل رہی ہوگی باہر۔‘‘
’’میں نے اسے ڈربہ دیکھنے بھیجا تھا جانے کہاں چلی گئی۔‘‘
’’مجھ سے بتا گئی تھی۔ وہاں انڈا نہیں تھا ایک بھی۔‘‘
’’تعجب ہے! آج کل تو دونوں ولایتی مرغیاں انڈے دے رہی ہیں، جانے ان نگوڑ ماری مرغیوں کو کیا ہوگیا؟‘‘
میں نے چچی جان کو بغور دیکھا، لیکن انھوں نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اب قریب قریب یقین ہوچلا تھا کہ ان کی تربیت کا پھل بدمزہ خربوزے سے بھی زیادہ خراب ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ چچی جان توجہ نہیں دیتی ہیں، اپنے بچوں کے لیے فکر مند نہیں ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ بچے ان کی مرضی کے مطابق کیوں نہیں سدھرتے تھے، اپنی بری عادتیں کیو ںنہیں چھوڑتے تھے۔ مجھے اس کا بھی کچھ کچھ پتہ لگ گیا تھا۔ میں نے رات کے کھانے کے بعد چچی جان سے گاؤں واپس جانے کا خیال ظاہر کیا۔
’’بیٹی! ابھی آئی ہو۔ اتنی جلدی چلی جاؤگی۔‘‘ چچی جان نے کہا۔
چچی جان! کچھ طبیعت خراب ہورہی ہے، ایسا نہ ہو کہ تنہا آپ پر بوجھ بن جاؤں۔ میں نے عذر کیا۔ چچی جان کو بھی خطرہ نظر آگیا۔ انھوں نے فوراً ااپنا اصرار ختم کردیا مگر کئی رات تک محبت اورپیار کی باتیں کرتی رہیں۔ سارے خاندان والوں کا باری باری ذکر آیا۔ میں مجبوراً بڑی بوڑھی بن کر سب کچھ سنتی رہی۔ اچانک ان کو خیال آگیا کہ نجمہ عشاء کی نماز بغیر پڑھے سوگئی ہے۔ انھوں نے جھنجھوڑ کر اسے جگایا۔’’چل اٹھ کمبخت! نماز اگر چھوڑی تو گردن مروڑ دوں گی۔‘‘
بے چاری چھ سات سال کی نجمہ سہم کر اٹھی، اونگھتے اونگھتے وضو کرکے نماز ادا کی اور بستر میں دبک کر لیٹ رہی۔ رات کافی ہوچکی تھی۔ اس لیے میںبھی سورہی، صبح اٹھ کر گاؤں جانے کی تیاری کرنی تھی۔ رات بڑے سکون کے ساتھ نیند آئی اس لیے کہ اب میری تربیت اور اصلاح کا زمانہ ختم ہورہا تھا۔ صبح آنکھ بھی بڑی جلدی کھل گئی، مگر چچی جان سوتی رہیں۔ سورج کافی چڑھ آیا تھا، یہ جاگتیں تو میں رخصت ہوتی۔ مجھے سخت کوفت ہورہی تھی۔ رات بیچاری نجمہ پر اس بری طرح عتاب نازل ہوا تھا، اور خود اپنی نماز کی خبر نہیں۔ نہ معلوم کس کس انداز سے میں جھنجھلارہی تھی کہ آخر کار چچی جان بیدار ہوئیں۔ دیر تک سوتے رہنے کی تاویل کرنے لگیں۔ میں نے اجازت چاہی، لیکن انھوں نے ناشتے کے لیے اصرار کیا۔
’’چچی جان! بس کا وقت ہوگیا ہے، پھر نہ مل سکے گی۔‘‘
’’بڑا افسوس ہے بیٹی تم بھوکی جارہی ہو، کیا بتاؤں بیٹی قسمت ہی خراب ہے۔ بچے بھی نکمے ہیں۔ اتنی جان کھپانے پر بھی کسی کام کے نہ نکلے۔ کاش ان سے ہی کچھ مدد ملتی تو آج تم سے یہ شرمندگی نہ ہوتی۔‘‘
بھلا چچی جان کو کیا معلوم بھوکی جاتے ہوئے بھی مجھے خوشی تھی۔ کم از کم اب گاؤں جاکر اپنی سہیلیوں کے ساتھ بے فکری کے ساتھ آموں کی فصل اور کوئل کی کوک کا لطف تو اٹھا سکوں گی۔
بس جیسے جیسے گاؤں کی طرف بڑھتی جاتی تھی میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا جاتا تھا۔ میرے ماتھے کی شکنیں اور چہرے کی افسردگی دور ہوتی چلی جارہی تھی۔ کاش! چچی جان کے بچے اس ماحول میں آکر کچھ دن رہ سکتے۔ کتنے بدقسمت ہیں بے چارے!