جاوید نے ایم بی بی ایس پاس کیا تو رشتوں کی قطار لگ گئی۔ بجائے اس کے کہ معروف و مہذب روایت کے مطابق ارشاد صاحب اپنے بیٹے کے لیے کسی لڑکی کے گھر والوں کو رشتہ کا پیغام بھجواتے، متعدد لڑکیوں کی مائیں ان کے گھر آنے لگیں یا ارشاد صاحب کے پاس دوسرے مقامات سے پیغام آنے لگے۔ کچھ پیغامات کے ساتھ متوقع داماد کی ’’قیمت‘‘ بھی بازار بھاؤ کی مناسبت سے ڈھکے چھپے انداز میں بتائی جاتی رہی… نقد اور جہیز کی شکل میں پیشکش کے طور پر۔
ارشاد صاحب شروع کے مرحلے میں ہی بات صاف کردیا کرتے کہ وہ جہیز اور بارات کو حرام ہونے کی حد تک ناقابل قبول مانتے ہیں۔ ’’بغیر مطالبہ جہیز‘‘ اور ’’بامطالبہ جہیز‘‘ میں فرق کرنے کے ڈھکوسلہ اور منافقانہ ڈرامہ سے انھیں اتنی ہی نفرت ہے جتنی کسی شریف انسان کو کسی کے گھر ڈکیتی ڈالنے سے ہوسکتی ہے۔ بارات لے جانے کو وہ ظلم اور لڑکی والوں کا کھلا استحصال مانتے ہیں خواہ استحصالی ٹولے میں سارے کے سارے سوٹ ٹائی اور ٹوپی شیروانی، داڑھی، نشانِ سجدہ اور علاماتِ تقویٰ والے ہی کیوں نہ ہوں۔
مہینوں پیغامات آنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ کوئی لڑکی والا ایسے رشتے کے لیے آمادہ نہ ہوا جس میں جہیز نہ دے کر اور بارات کی دھما چوکڑی نہ کراکے اسے رشتہ داروں میں، احباب میں اور سماج میں کمتر اور حقیر بن کر رہنا پڑے۔ ارشاد صاحب کو بڑا صدمہ تھا عام طور پر مشہور اس بیان کی حقیقت پر جو اکثر لڑکی والوں کی طرف سے دیا جاتا رہا ہے کہ ’’ارے صاحب! کہاں ملتے ہیں ایسے نیک اور شریف لوگ جو اپنی بیٹوں کا رشتہ بغیر جہیز لیے کردیں۔ اجی جہیز کی مخالفت کرنا صرف دکھاوا ہے۔ کون ہے جو واقعتا جہیز نہ لینا چاہے، یا نہ لے۔ سب اصلاحِ معاشرہ کی تقریریں اور تحریریں ڈرامے ہیں۔‘‘
خیر خواہوں نے ارشاد صاحب کو سمجھانا شروع کردیا: ’’یہ شدت پسندی ہے، اس روش کو چھوڑ دو۔‘‘ کوئی کہتا: ’’بیٹا کنوارا رہ جائے گا۔ سماج سے بغاوت ترک کردو۔‘‘ کوئی مشورہ دیتا: ’’اکیلے چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا، بہت اصول پسندی بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔‘‘ کوئی سمجھاتا: ’’جب جہیز کا از خود مطالبہ نہیں کررہے ہو اور کوئی خوشی سے دینا چاہے تو اس میں تو کوئی اسلامی قباحت بھی نہیں ہے۔‘‘ کوئی تاؤ دلاتا: ’’شریعت نے کہاں منع کیا ہے جہیز لینے سے؟ دکھاسکتے ہو کوئی آیت یا حدیث؟‘‘ کوئی دوسرا عالمِ دین سنتِ نبویؐ کو ’’دلیل‘‘ بناتا: ’’آخر حضورؐ نے بھی تو حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا۔ تم سنت کی مخالفت کررہے ہو، آخرت سے ڈرتے نہیں؟‘‘ جتنے منہ اتنے مشورے، نصیحتیں، تنقیدیں، ترغیبیں اور فتوے۔ لوگ اس قدر بھی بدبخت ہوجاتے کہ اپنی نفس پرستی کو جواز دینے کے لیے حضورؐ کی ذاتِ اقدس کو بھی تختۂ مشق بنادینے میں باک نہ ہوتا۔ لیکن ارشاد صاحب ایک طرف … یہ ساری منافقانہ ورزشیں ایک طرف۔ ارشاد صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وہ اپنی دلیلیں دیتے اور اپنے موقف پر اڑے رہتے۔ دوسرے لوگ اپنی دلیلوں سے ارشاد صاحب کی دلیلوں کی کاٹ کرنے کا ’’کارِخیر‘‘ کرتے۔ داناؤں کا کہنا ہے کہ دلیلیں بجائے خود کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ کسی حقیقت کو سمجھنے اور سچائی کو پانے کے لیے وجدان، سعادت نفس اور سلیم الفطرتی کی اہمیت، دلائل کی اہمیت پر بھاری ہوتی ہے۔ آپ خدا کے وجود کی تین سو ساٹھ دلیلیں دے ڈالیے، ملحدین خدا کے عدم وجود کی تین سو اکسٹھویں دلیل پیش کردیں گے۔
ارشاد صاحب بہت دولتمند نہیں ہیں۔ سادہ رہن سہن، بہت دیندار، خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش، باکردار خلیق صالح شخصیت ہیں۔ اس وجہ سے سماج میں بہت عزت ہے۔ بالآخر کسی لڑکی والوں کی طرف سے پیغام آیا کہ ’’ارشاد صاحب ہمارے گھر پر چائے پئیں، ہمیں آپ کے خیالات اور شرائط کا علم ہوگیا ہے۔‘‘
لڑکی والوں نے ارشاد صاحب کی شخصیت، سماجی حیثیت کا بھی علم حاصل کرلیا تھا اور اس بات کا بھی کہ لڑکا ایم بی بی ایس ہونے کے ساتھ ساتھ نمازی، دیندار اور سیدھا سادا بھی ہے لہٰذا ابھی نے ’’بغیر جہیز‘‘ اور ’’بغیر بارات‘‘ کا تلخ گھونٹ پینے کے لیے خود کو آمادہ کرلیا تھا۔ متعینہ وقت پر ارشاد صاحب میزبان کے گھر پہنچ گئے۔
چائے ناشتے کے بعد گفتگو دھیرے دھیرے رشتے کی تجویز کی طرف مڑگئی۔ آخر میں میزبان نے کہا: ’’ویسے تو ہمارے نزدیک ذات برادری کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن اہلِ خانہ بھی ہیں، رشتے دار بھی، دوست احباب بھی اور سماج بھی۔ ان سب کو نظر انداز بھی تو نہیں کیا جاسکتا…‘‘ اتنا کہہ کر میزبان خاموش ہوگیا۔
’’صاف صاف کہیے۔‘‘ ارشاد صاحب بولے: ’’کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں بہت صاف بات کرتا ہوں اور یہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرتا ہوں۔‘‘ ارشاد صاحب نے بات کی تہہ تک پہنچ جانے کے باوجود پوچھا۔
’’بات یہ ہے جناب کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی برادری کیا ہے؟ یعنی حسب نسب!‘‘
’’اوہ ووہ! برادری؟ میں مسلم ورن آشرم میں چوتھے درجہ… شودر کے درجہ پر ہوں۔ میرا پورا نام ارشاد احمد انصاری ہے، اور انصاری جُلاہا کو کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا اچھا! ‘‘ میزبان بولا ’’لیکن میں خان ہوں۔ اصلی پیور خالص خان‘‘
’’یعنی چنگیز خان کی اولاد؟ بھئی واہ، سبحان اللہ! آپ تو بہت تاریخی آدمی ہیں۔‘‘
’’خیر…‘‘ میزبان چنگیز خان سے اپنی نسبت پر کچھ جھینپ سا گیا۔ ارشاد صاحب نے تہیہ کرلیا تھا کہ یہاں رشتہ ہرگز نہیں کرنا ہے لہٰذا چلتے چلتے، اختتامی کلمات میں اگر کچھ تلخی بھی آجائے تو کوئی حرج نہیں۔ حقیقت کو برہنہ کیوں نہ کردیا جائے۔ میزبان نے بات پوری کی:
’’…اصل میں ارشاد صاحب، بات یہ ہے کہ رشتوں میں ہڈی تو تلاش کی ہی جاتی ہے۔ ہڈّی کی اہمیت مسلّم ہے۔‘‘ میزبان نے بات بالآخر پوری طرح صاف کردی۔
’’ہاں ہاں… بالکل …‘‘ ارشاد صاحب نے غزل کا مقطع پیش کرتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہڈّی کی اہمیت تو کتّوں کے نزدیک ہوتی ہے۔ تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ملتے ہی جھپٹ پڑتے ہیں۔‘‘ کہہ کر علیک سلیک کی رسم ادا کرکے ارشاد صاحب واپس ہوگئے۔ راستے بھر ان واقعات کو یاد کرتے رہے جن کے بارے میں پتہ چلتا تھا کہ والدین ہڈی تلاش کرنے میں مشغول ہیں اور اس حالت میں بیٹیوں کے سر میں چاندی کے تار نظر آنے لگے اور ان میں سے کچھ پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگے۔