ریٹائرڈ کرنل عتیق الحق کی صاحبزادی رفیدہ صبح صبح مسجد میں آپہنچی اور ہوائی چپل باہر اتار کر اندر چلی آئی۔ ادھر ادھر نظر ڈالنے کے بعد وہ سیدھی میری طرف چل پڑی۔ میں حیرانی سے دیکھتا رہا کہ یہ کیا قصہ ہے کہ رفیدہ اور مسجد میں۔ دراصل حج کرنے کے بعد میں خواہی نخواہی حاجی مشہور ہوگیا۔ صبح کو ناشتے کے وقت تک میں کئی سال سے روزانہ مسجد میں بیٹھ کر پہلے قرآن پڑھتا، پھر کسی آیت کے متعلق تشریحی مضمون تفسیروں کی مدد سے لکھتا۔ تقریباً ایک بڑا صفحہ ہوتا جو ایک روزانہ اخبار میں چھپتا اور میں اس کا معاوضہ نہیں لیتا تھا۔ اس طرح بہت سے لوگ مجھے جاننے لگے۔ خصوصاً محلے میں تو بچہ بچہ بابا آفندی یا حاجی آفندی کے لقب سے مجھے جانتا تھا۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ لوگ مجھے عالم یا مولوی سمجھ کر کوئی مسئلہ پوچھنے میرے پاس آجاتے۔ ایسی ہی صورت تھی کہ رفیدہ ایم اے بھی مجھ تک آپہنچی۔ میرے بڑے برادرانہ تعلقات کرنل عتیق سے تھے اور دوسرے چوتھے دن ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بھی ہوجاتا، مسجد میں تو ہر نماز کے وقت سامنا ہوتا۔ کرنل عتیق کا واقعہ عجیب تھا۔ ایک اچھے شائستہ گھرانے میں اس کی شادی کوئی پینتیس برس کی عمر میں ہوئی۔ دراصل کرنل وقت کی گاڑی سے پیچھے رہ گیا تھا اور شادی کا اسٹیشن کافی دور آگے واقع تھا۔ جس طرح قحط زدہ ترسی ہوئی زمین میں بارش ہوتی ہے، وہی کیفیت کرنل کو نکاح کے وقت درپیش تھی۔ کرنل کی بدقسمتی میں شراب کو بڑا دخل تھا۔ شراب اکیلی نہیں ہوتی بلکہ بلاؤں کا ایک پورا طائفہ اس کے ساتھ ہوتا ہے مگر بڑا حیرت ناک واقعہ ہوا جس نے ساری بستی اور علاقے پر اثر ڈالا۔ آدھی رات کو کرنل صاحب نے جب دلہن کے کمرے میں قدم رکھا تو دلہن نے نشۂ شراب کا عالم دیکھ کر صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا کہ ’’آئی کانٹ ویلکم یو، وائیل یو آراِن دی گرپ آف لیکر!‘‘ کرنل نے لمبے لمبے لہجے میں دو لفظ کہے مگر دلہن یعنی رفیدہ کی ماں نے زور سے کہا کہ ’’صبح ہونے تک شراب سے توبہ کرکے، نہاکر نماز ادا کرو، پھر مجھ سے بات کرنا ورنہ میں واپس چلی جاؤں گی۔‘‘ کرنل رونے لگا اور دروازے سے باہر بیٹھ کر صبح تک روتا رہا۔ مکان کے اس حصے کی چار دیواری الگ تھی اس لیے بات باہر نہ نکلی۔ پس اس صبح کے بعد سے کرنل نے تمام لغویات کو یک قلم ترک کردیا اور نماز قرآن کی طرف پوری توجہ لگا دی۔ کرنل کی اِس میدان میں آدھی اُستاد اس کی بیوی تھی اور باقی آدھی استادی میں کرتا۔ کئی بار کرنل کی بیگم ناہید کی طرف سے مجھے کچھ خاص ہدایات ملتیں اور کبھی وہ مجھ سے سوالات پوچھتی۔ ان حالات میں مجھے کرنل اپنے سارے عزیزوں اور دوستوں سے بڑھ کر عزیز لگتا، اور اس کے گھروالے بھی میری بڑی قدرومنزلت کرتے۔
رفیدہ اپنا ایک خواب لے کر آئی تھی۔ وہ کہنے لگی ’’میں نے تہجد کی نماز پڑھی اور سوگئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ روشنی سے بنا ہوا ایک محل ہے اور روشنی ہی کا ایک دروازہ ہے اور روشنی ہی کی چوکھٹ ہے مگر ہر روشنی کا رنگ جدا جدا ہے۔ چند مرد اور عورتیں ہیں جو لائن بنائے کھڑے ہیں اور باری باری ان میں سے ایک آگے بڑھ کر اس چوکھٹ کو چومتا ہے۔ اس پر سر رکھ دیتا ہے اور پھر اپنے دکھ درد کی بات کرتا ہے۔ میں پانچویں نمبر پر کھڑی ہوں اور مجھ سے پیچھے کوئی پندرہ افراد اور ہوں گے۔ دل میں سوچ رہی ہوں کہ مجھے دیر نہ ہوجائے کیونکہ فجر کی نماز کا وقت قریب ہے۔ آخر میری باری آجاتی ہے اور میرا چہرہ اور میری پیشانی اس چوکھٹ پر ٹک جاتی ہے۔ کیا بتاؤں، کیا سکون کا لمحہ تھا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ وقت کا احساس نہیں تھا، ذہن میںایسے بھنور سے پڑ رہے تھے اور میں سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ مجھے کیا فریاد کرنی ہے۔ آخر مجھے یوں نظر آیا کہ میرا خاوند ہے اور وہ مجھ کانٹے چبھو رہا ہے۔ اس بات کی فریاد میں کرتی ہوں۔ میرا شعور ووجدان یہی ہے کہ یہ خدا کی خاص جلوہ گاہ ہے۔ میں کہتی ہوں کہ میرے ربِّ عظیم! میں نے اپنے شوہر کے ازدواجی حقوق حفاظتِ عزت و عصمت کے فرائض، حفاظتِ مال کے فرائض اور پرورش و تربیتِ اولاد کی ذمہ داریاں بلا چوں و چرا ادا کیں بلکہ شوق سے کیں۔ دوسری طرف سے مجھے نان و نفقہ بھی صحیح ملا اور جملہ ضروریات پوری ہوتی رہیں مگر مجھے عزت نہیں ملی۔ مجھے بارہا ناجائز طور پر غصے کا ہدف بننا پڑا، مجھے اعتراض سن کر جواب میں وضاحت کرنے کا حق نہیں دیا گیا، میرے انسانی احوال و ضروریات کا خیال کیے بغیر مجھ پر ناجائز حکم چلائے گئے۔ میری انا یا عزتِ نفس کو کچوکے دئیے گئے۔ مجھے یہ احساس دلا کر ذلیل کیا گیا کہ تم ایک عورت ہو، ایک بیوی ہو، میرے ماں باپ اور بہن بھائیو ںکے موجود ہوتے ہوئے بعض اوقات ان کا احترام بھی نہیں کیا گیا۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ یا تو اس خاندانی اور تعلیم یافتہ آدمی کی آپ اصلاح فرمادیں، یا مجھے دنیا سے اٹھالیں۔ آپ نے آپ کے رسولِ پاک نے عورت کی عزت بحال کرنے کے لیے جو انقلاب پیدا کیا تھا، اس دور میں تیرے مسلمان اس انقلاب کے رہے سہے اثرات کے بھی مخالف ہیں۔ میں ایسے دور میں نہیں رہنا چاہتی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
اس حیرت ناک اور غم انگیز واقعہ کی کیا توجیہ کروں کہ رفیدہ کا سر معاً ایک طرف ڈھلک گیا اور وہ پہلو پر گِر پڑی اس کی روح پرواز کرچکی تھی۔ میں گریہ کے سمندر میں ڈوب کر رہ گیا۔ نجانے کب تک اس عالم میں رہا ۔ مسجد میں موجود کسی بچے نے اس کے گھر میں اطلاع کردی کچھ حواس بجا ہوئے تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا، ہر طرف کہرام مچ گیا۔