جیسے جیسے بڑھ رہا ہے دوستی کا دائرہ
تنگ ہوتا جارہا زندگی کا دائرہ
فطرت حق سے پرے ہوتا ہے جب علم و شعور
تنگ ہوجاتا ہے فکر وآگہی کا دائرہ
پھر ابھرتا ہے نئی تہذیب کے چہرے پہ داغ
ٹوٹتا ہے جب کہیں پاکیزگی کا دائرہ
بے بسی، احساس محرومی، تفکر اور گھٹن
کتنے ارمانوں کا مدفن مفلسی کا دائرہ
قید ہوکر رہ گئے ہیں تم حصارِ ذات میں
جب سے توڑا ہے خدا کی بندگی کا دائرہ
حیثیت میری جدا اور راستہ تیرا الگ
میں عصائے موسویؑ، تو سامری کا دائرہ
سرد ہوجاتے ہیں جذبے زندگی کی جنگ سے
جب بنالیتے ہیں ہم بے ہمتی کا دائرہ
شاعری عارفؔ اگر ہے ترجمانِ زندگی
کس لیے محدود ہو پھر شاعری کا دائرہ