زندگی ہے یہ عارضی بابا
ہم یہاں پر ہیں خارجی بابا
ہے گوارا مجھے تمہارا غم
بانٹ لو تم مری خوشی بابا
روز مرتا ہوں، روز جیتا ہوں
یہ بھی ہے کوئی زندگی بابا
پیاس حرص و ہوس کی ایسی ہے
دور ہوگی نہ تشنگی بابا
سن کے عارفؔ کے شعر وہ بولے
ہم نہ سمجھے ہیں فارسی بابا