تیز رفتار اسٹاف بس جیسے ہی سنیما چوک پر دھیمی ہوئی انور دوڑتا ہوا پائیدان پر چڑھ گیا۔ قریب ہی کھڑے رمن نے انور کے بازو پکڑ کر سہارا دیا اور اسے چلتی بس میں اوپر کی طرف کھینچ لیا۔ انور جو ابھی تک اپنی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا، رمن کو دیکھ کر تشکر آمیز نظروں کے ساتھ مسکرایا۔ رمن نے دھیرے سے ہیلو کہا۔ انور بھی ہیلو کہتے ہوئے اس سے بغل گیر ہوگیا۔ دونوں دوست ہنستے رہے اور بس فراٹے بھرتی ہوئی فیکٹری کی حدود میں داخل ہوگئی۔ جنرل آفس کی شاندار عمارت سامنے تھی۔
’’آج تم نے اتنی دیر کیوں کردی؟ میں کب سے تمہاری راہ دیکھ رہا تھا۔ میںنے سمجھا شاید تم آج C.L.پر رہو گے۔‘‘
’’نہیں یار، آج وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘ انور نے اپنی کلائی پر نظر دوڑائی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ اپنی قیمتی رسٹ واچ کمرے میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ ’’رمن غضب ہوگیا۔ میں اپنی گھڑی گھر پر ہی چھوڑ آیا ہوں۔ ننھا پپو ہر چیز کو اٹھا کر پھینکتا ہے۔ کہیں گھڑی بھی برباد نہ کردے۔‘‘
’’اور بھابھی اسے روکیں گی نہیں!‘‘
’’دھت! وہ بچے سے کوئی چیز نہیں چھینتیں۔ ان کا خیال ہے کہ بچے سے بڑھ کر یہ چیزیں نہیں۔ اب تک کتنی چیزیں برباد ہوچکی ہیں۔‘‘
’’خیر گھبراؤ نہیں۔ تمہاری گھڑی برباد نہیں ہوگی۔‘‘
رمن کے دلاسہ کے باوجود انور گھڑی کے لیے پریشان رہا۔ آج کام کرنے میں بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔
……………
انور کے دروازے پر کال بیل بجی۔
’’کون صاحب؟‘‘
’’جی! میں بھولا ہوں۔ صاحب کا نیا اردلی، ابھی کل ہی میں نے جوائن کیا ہے۔‘‘
’’اچھا! پھر کیا ہے؟ صاحب تو آفس گئے۔‘‘
’’جی! بات یہ ہے کہ صاحب نے مرغا بھجوایا ہے۔ شاید کوئی خاص مہمان آنے والے ہیں رات کے کھانے پر۔‘‘ اور بھولا نے تھیلے سے ایک مرغا نکال کر سامنے رکھ دیا۔ اس کی دونوں ٹانگیں بندھی ہوئی تھیں۔ مرغا کھڑا ہوا تو بندھی ٹانگوں سے ہی پھدکنے لگا۔ بھولا نے اسے دبوچا اور مسز انور کے حوالے کردیا۔ مسز انور سوچنے لگیں: آخر کون خاص مہمان ہوسکتا ہے۔ ارے ہاں! یاد آیا۔ پچھلے دنوں بھائی جان کا فون آیا تھا۔ وہ کسی شادی میںیہاں آنے والے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کا ہی پروگرام بن گیا ہو یا پھر آفس میں ان کا فون آیا ہو۔ مسز انور کے چہرے پر خوشی کے آثار بکھرنے لگے۔
’’اور میم ساب! ساب اپنی گھڑی روم میں ہی چھوڑ گئے ہیں۔ ساب نے گھڑی بھی منگوائی ہے۔‘‘
’’اچھا! تعجب ہے۔ وہ اپنی گھڑی کیسے بھول گئے۔‘‘ اور مسز انور جب کمرے میں گئیں تو واقعی انور کی قیمتی گھڑی پلنگ پر رکھی ہوئی تھی۔ انھوں نے احتیاط سے گھڑی اٹھائی اور پھر بھولا کے حوالے کرتے ہوئے یہ ہدایت دی: ’’دیکھو! یہ گھڑی صاحب کو بہت عزیز ہے۔ ذرا سنبھال کر لے جانا ہوشیاری سے۔‘‘
’’جی میم صاحب! ‘‘کہتے ہوئے بھولا نے گھڑی لے لی اور چلتا بنا۔
مسز انور اپنے بھائی جان کی آمد کی خبر پر بے حد خوش تھیں۔ انھوں نے سب سے پہلے گھر کی صفائی کی۔ چیزوں کو قرینے سے رکھا، چادریں، ٹیبل کلاتھ، تکیہ کے غلاف، پردے بدلے اور ننھے پپو کے ہاتھ منھ دھوئے۔ اس کے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے انھوں نے پپو کو سمجھایا کہ بڑے ماموں جان آنے والے ہیں۔ رونا، دھونا نہیں، کوئی شرارت نہیں کرنا۔ ہاں! اور ننھا پپو بھی اپنی ماں کی باتیں سنتا رہا اور ہنستا رہا۔ مسز انور نے راجو کو مارکیٹ بھیج کر مٹھائیاں، پھل، مکھن، دودھ وغیرہ منگوالیا تاکہ انور کو دفتر سے آکر مارکیٹ نہ جانا پڑے۔ مسز انور نے یہ سارے کام بڑی مستعدی سے انجام دیے۔ وہ بھائی جان کے آنے کے پروگرام کی خبر سے دل ہی دل میں خوش تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ بھائی جان سے گھر کے تمام لوگوں کی تفصیلی خیریت ملے گی۔ اماں کیسی ہیں؟ ابو کی آنکھ کا کیا حال ہے؟ بھابی جان خط کیوں نہیں لکھتیں۔ ننھی شفقت تو اب بڑی ہوگئی ہوگی؟ سب کو لے کر یہاں کیوں نہیں آتے۔ مجھے تو ان کی چھٹی پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ ان کا دفتر دنیا کا نرالا دفتر ہے۔ ان کو کبھی فرصت ہی نہیں ملتی۔ ہر وقت کام کام اور بس کام ہی رہتا ہے۔ کبھی شوق سے بھی کہیں نہیں لے جاتے۔ ایسی بھی غلامی کیا- اونہہ- مسز انور نے برا سامنہ بنایا۔ ٹھیک اسی وقت کال بیل بجی۔
’’کون؟‘‘
’’میں ہوں بھولا میم ساب!‘‘
’’اب کیا ہے؟‘‘ مسز انور نے دروازہ کھولا۔ سامنے بھولا کھڑا تھا۔
’’جی میم ساب! بات یہ ہے کہ جو خاص مہمان آنے والے تھے وہ کسی وجہ سے آج نہیں آرہے ہیں۔ ساب نے کہا ہے کہ مرغا آج پولٹری میں واپس کردو، جب مہمان آئیں گے تب پھر آجائے گا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ مسز انور کو دھکا سا لگا۔
’جی! ساب نے تو یہی کہا ہے۔‘‘
مسز انور تھوڑی دیر کے لیے گہری سوچ میں پڑگئیں۔ ان کی ساری خوشیاں پل بھر میں کافور ہوگئیں۔ ہاتھ پاؤں جیسے شل ہوگئے۔ وہ صرف بھولا کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہیں۔
’’میم ساب! مرغا آج پولٹری کو واپس کردیتا ہوں۔‘‘ اور بھولا مرغا لے کر جاچکا تھا۔
مسز انور طرح طرح کے خیالات میں غلطاں و پیچاں رہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ شام دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔ آج کا دن مسز انور کے لیے کچھ عجیب و غریب سا رہا۔ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ وہ انور کا بڑی بے صبری سے انتظار کررہی تھی کہ کال بیل بج اٹھی۔ مسز انور نے تیزی سے دروازہ کھولا۔ انور سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’یہ کیا تماشا ہے؟‘‘
’’تماشہ!‘‘
’’ہاں! تماشہ نہیں تو اور کیا۔‘‘ مسز انور پیچھے پیچھے کمرے میں آگئیں۔
’’بھئی! اب تم اس کو جو نام دے دو۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ میں آفس جانے کے وقت اپنی رسٹ واچ کمرے میں ہی بھول گیا تھا۔ راستہ میں یاد آیا تو دن بھر فکر مند رہا۔ پپو سے زیادہ خطرہ تھا۔ میری رسٹ واچ صحیح سلامت ہے نا؟‘‘ انور بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
’’گھڑی آپ کو نہیں ملی کیا؟‘‘ مسز انور نے تفکر آمیز انداز میں پوچھا۔
’’گھڑی … مجھ کو … کیسے…؟‘‘
’’وہ بھولا آیا تھا… مرغا…؟‘‘
’’بھولا… مرغا… یہ کیا کہہ رہی ہو، صاف صاف بتاؤنا۔‘‘
مسز انور نے ساری تفصیل بیان کردی۔ انور کا سر چکرا گیا۔ وہ پلنگ پر لیٹ گیا اور چھت سے لٹکتے پنکھے کو دیکھنے لگا جس کے بلیڈ دھیرے دھیرے دائرے میں گھوم رہے تھے۔ اس کا سر بھی ان ہی دائروں میں چکر کاٹنے لگا۔