غم کسی کو تروتازہ نہیں رہنے دیتا
کشتِ جاں کو بھی شگفتہ نہیں رہنے دیتا
وقت اک ایسا ہی مرہم ہے کہ انسانوں کے
زخم بھر دیتا ہے گہرا نہیں رہنے دیتا
مہرباں اک ذرا ہوجائے تو بستی کیا ہے
وہ تو صحرا کو بھی پیاسا نہیں رہنے دیتا
سچ یہی ہے کہ بدلتا ہے یوں موسم کا مزاج
کہ درختوں پہ بھی پتّا نہیں رہنے دیتا
سخت ہوجاتا ہے کس درجہ ہواؤں کا مزاج
جب وہ دریا کو بھی دریا نہیں رہنے دیتا
کل رہوں یا نہ رہوں سوچ کے یہ بات شفیقؔ
آج کا کام ادھورا نہیں رہنے دیتا