زبان یہ ایک ذو معنی لفظ ہے ایک تو وہ جو ہمارے جسم کا عضو ہے جسے ہم انگریزی میں Tongueکہتے ہیں دوسرا وہ جس کے ذریعے ہم اپنی بات کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ مطلب ہمارے خیالات اور احساسات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ ہے جسے ہم انگریزی میں Language کہتے ہیں۔ جیسے اردو، مراٹھی، ہندی، انگریزی اور فرانسیسی وغیرہ۔
زبان سے ہم ہر چیز کا ذائقہ حاصل کرتے ہیں، جیسے ہم پھلوں اور دواؤں کے مختلف مزے لیتے ہیں اور یہی زبان مختلف پکوانوں کے ذائقوں سے ہمیں محظوظ کرتی ہے۔ اور انہی ذائقوں کی وجہ سے ہم خوب کھانے کے عادی بھی ہوگئے ہیں جس دن کھانے کا ذائقہ بدل جائے یعنی کھانا بدمزہ ہوجائے تو اس دن بیوی کی شامت آجاتی ہے، شوہر کا منہ غبارہ ہوجاتا ہے، زبان بند ہوجاتی ہے یا پھر کچھ زیادہ ہی چلتی ہے تو بیگم اپنی زبان سے صفائی پیش کرنے میں اور اپنے میاں کی منت سماجت میں مصروف رہتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زبان نہ ہوتی تو مزہ بھی جاتا رہتا اور ہم بات چیت کرنے سے محروم رہتے۔ زبان ایک عطیۂ خداوندی ہے۔
اگر ہم نظر دوڑائیں تو ایک طرف تو ہمیں علاقائی سطح پر زبانوں کے جھگڑے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف زبان ہی کی وجہ سے میاں بیوی کے جھگڑے یا پھر ساس بہو کے جھگڑے۔
ایک دن ہم نے بیگم سے کہا کہ زبان سنبھال کر بات کیجیے۔ یہ جملہ ہمارے بچے نے سن لیا اور اپنی زبان پکڑ کر بیٹھ گیا۔ دوسری مرتبہ جب ماہانہ بجٹ پر بیگم سے جھگڑا ہوا، ہم نے کہا بیگم زبان کو لگام دو تبھی ہمارے بچے نے کہا پاپا لگام تو گھوڑے کی ہوتی ہے آپ ممی کو کیوں کہہ رہے ہیں؟ تب ہم نے برجستہ کہا کہ بیٹے تمہاری ممی کی زبان بھی تو گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتی ہے۔ یہی وہ زبان ہے جس سے ہم میٹھے بول بول کر عزت کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور یہی وہ زبان ہے جس کے کڑوے بول سے ہمیں ذلت و خواری بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ آپ کون سی بولی کا استعمال کریں گے۔
یہ زبان تجارت و دوکانداری میں بھی بڑی کارآمد ہوتی ہے۔ مطلب کسی تاجر یا دوکاندار کی زبان میں نرمی و مٹھاس ہو تو گاہک دوڑ کر اس کی طرف چلے آتے ہیں۔ اس کی دوکان خوب چلتی ہے اور دوکان ہی کیا زبان سے ہی زندگی کی گاڑی بھی احسن طریقے سے چلتی ہے ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’جو خوش مزاج نہیں اسے دوکان کھولنی ہی نہیں چاہیے۔‘‘ یعنی زبان ہے تو دوکان ہے۔
ایک مرتبہ کسی بادشاہ نے اپنے خانساماں سے کہا آج ہمیں کوئی اچھی چیز پکا کر کھلاؤ۔ خانساماں نے بادشاہ کو زبان پکا کر کھلائی۔ دوسرے دن بادشاہ نے خانساماں سے کہا اب کوئی خراب چیز پکاکر کھلاؤ تب بھی خانساماں نے زبان ہی پکاکر کھلائی۔ بادشاہ نے پوچھا کہ خانساماں! ہم نے تم سے کہا کہ اچھی چیز پکا کر کھلاؤ تم نے زبان پکاکر کھلائی، پھر ہم نے تم سے خراب چیز پکا کر کھلانے کے لیے کہا تب بھی تم نے زبان ہی پکا کر کھلائی۔ خانساماں نے جواب دیا بادشاہ سلامت! یہ ’’زبان‘‘ ہی وہ چیز ہے جو اچھی بھی ہے خراب بھی!!! مطلب صاف ہے کہ اسی زبان کے میٹھے اور شیریں الفاظ سے ہم دشمن کو بھی دوست بناسکتے ہیں اور اسی زبان کے کڑوے کسیلے الفاظ سے دوست کو دشمن بناسکتے ہیں۔ جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آسکتا اسی طرح زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں آسکتی۔ اس لیے ہمیں بولنے سے پہلے تول لینا چاہیے تاکہ ہماری زبان کی تلخی یا ترشی سے کسی کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ تلوار کا زخم تو بھر سکتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ کبھی نہیں بھرسکتا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم گفتار میں شیرینی پیدا کریں زبان سے نرمی اور سچائی سے کام لیں تاکہ ہمارا اچھا کردار لوگوں کے سامنے آئے ذرا سوچیے یا تصور کیجیے اگر زبان نہ ہوتی اور کسی قسم کی آواز نہ ہوتی تو یہ دنیا کا اسٹیج خاموش ادا کاری کرتا ہوا کیسا دکھائی دیتا۔ آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ ’’زبان‘‘ خدا کا دیا ہوا انمول تحفہ ہے۔ اسے قابو میں رکھنے اور اس کا بہتر استعمال کرنے سے ہی ہم دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا یار! تم ہواؤں میں ہی اڑتے رہتے ہو، ہوائی جہاز ہی میں سفر کرتے رہتے ہو کیا بات ہے؟ دوسرے دوست نے جواب دیا یار کیا بتاؤں! اب تم نے پوچھ ہی لیا ہے تو بتا دیتا ہوں! جب میں چھوٹا تھا تو گھر والوں کے کڑوے کسیلے بول سننے کو ملے جب اسکول گیا تو ٹیچر نے کڑوے بول بولے اور اب شادی ہوگئی ہے تو بیوی کڑوے بول بولتی ہے۔ لیکن ہوائی جہاز میں ایئر ہوسٹس بڑے میٹھے بول بولتی ہے اس لیے میں ہواؤں میں اڑتا رہتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان شیریں زبان کا کتنا دلدادہ اور رسیا ہوتاہے۔ اور دنیا کے کڑوے کسیلے اور تلخ بولوں سے کتنا متنفر ہوتا ہے کہ وہ محض میٹھی اور شیریں زبان سننے کے لیے لاکھوں روپیے خرچ کرنے کو تیار ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں بھی لوگ، ایسی میٹھی زبان کا استعمال کریں جس میں ادب، سلیقہ، تہذیب، شائستگی، اخوت اور انکساری ہو تو ہم بھی ایسا محسوس کریں کہ ہم زمین پر نہیں بلکہ آسمان کی بلندیوں پر سفر کررہے ہیں۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں ایک زبان اشاروں کی زبان بھی ہے۔ دل کی بات جو ہم زبان سے نہیں کہہ سکتے اشاروں کی زبان وہ کام کردیتی ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ اسے سیکھنا نہیں پڑتا یہ خود بخود آجاتی ہے، لیکن اس کا استعمال کم ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ مجلس یا تقریب میں دوسرے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے۔
زبان کی لغزش یا اس کا پھسل جانا بھی بڑا اہم مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی یہ بنے بنائے معاملے کو بگاڑ دیتی ہے۔ اور کبھی اس کے پھسل جانے سے مزیدار لطیفے بھی وجود میں آجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک عزیز اپنے نوکر پر برہم ہوئے اسے سخت سست کہا اور غصہ میں بولے: ’’نالائق تیرے بھوسے میں دماغ ہے کیا۔‘‘
کئی لوگوں کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہوتا ہے اور وہ دیگر زبانیں بھی مادری زبان کی طرح روانی سے بولتے ہیں اور ماہرِ لسانیات کہلاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ایک پیار کی، مٹھاس کی، زبان کا استعمال کریں تو ہم سے بڑا ماہرِ لسان کوئی نہ ہو، کیونکہ پیار، محبت، نرمی اور شیرینی ہر زبان کو عزیز ہے۔
زبان چاہے Tongueہو یا Languageدونوں ہی خدا کی انمول نعمتیں ہیں لہٰذا ان کی حفاظت ضروری ہے۔