نظم بہت آسان تھی پہلے
گھر کے آگے
پیپل کی شاخوں سے اچھل کے
آتے جاتے
بچوں کے بستروں سے نکل کے
رنگ برنگی
چڑیوں کی چہکار میں ڈھل کے
جب میرے گھر میں آتی تھی
میرے قلم سے
جلدی جلدی، خود کو پورا لکھ جاتی تھی
اب سب منظر بدل چکے ہیں
چھوٹے چھوٹے چوراہوں سے
چوڑے رستے نکل چکے ہیں
بڑے بڑے بازار
پرانے گلی محلے نگل چکے ہیں
نظم سے مجھ تک
اب میلوں لمبی دوری ہے
ان میلوں لمبی دوری میں
کہیں اچانک بم پھٹتے ہیں
کوکھ میں ماؤں کے سوتے بچے کٹتے ہیں
مذہب اور سیاست مل کر
نئے نئے نعرے رٹتے ہیں
بہت سے شہروں
بہت سے ملکوں سے اب ہوکر
نظم مرے گھر جب آتی ہے
اتنی زیادہ تھک جاتی ہے
میرے لکھنے کی ٹیبل پر
خالی کاغذ کو
خالی ہی چھوڑ کے رخصت ہوجاتی ہے
اور کسی فٹ پاتھ پہ جاکر
شہر کے سب سے بوڑھے شہری کی پلکوں پر
آنسو بن کر، سوجاتی ہے