ذرا سوچئے تو، اگر ہماری دنیا میں یہ پھول، بوٹے او رہریالی نہ ہوتی تو زندگی کتنی بے رونق اور بدنما ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کی جمالیاتی حس کو ناپنے کا پیمانہ ہی بعض اوقات چمن آڑائی کو سمجھا جاتا ہے۔ پھول ہماری معاشرت کا حصہ ہیں۔ کہیں کہیں تو اسے باقاعدہ صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے اور کہیں یہ صرف تعلیم دینے کے طو رپر استعمال ہو رہے ہیں۔ آج کل تو پھولوں کی سجاوٹ اور باغبانی کی تعلیم دینے کے باقاعدہ ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ آج کی بھاگ دوڑ کی طرز معاشرت اور زمین کی قلت نے باقاعدہ طور پر کسی قطعہ زمین پر باغبانی کے شوق کو کسی حد تک ختم کر دیا ہے۔
اگر آپ کے گھر میں باغیچہ ہے یا زمین کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا ہے توپھر آپ بہ آسانی اس میں پھلواری پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کام کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز موزوں زمین کا ٹکڑا ہے۔ ایسی زمین جس میں اگر ملبہ وغیرہ پڑا رہا ہے یا پھر اسے وہیں دبا دیا گیا ہے تو ملبے میں شامل تلف نہ ہونے والی چیزیں خاصی تکلیف دہ ہوتی ہیں او ریہ باغیچہ کے پروان چڑھنے میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ پھلواری لگانے کی تو بہت کوشش کی لیکن زمین ہی خراب ہے یا پانی کھارا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آپ اگر باغیچہ بنانے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے زمین کی قسم معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ زمین آیا ریتیلی ہے، پتھریلی ہے یا کلر زدہ ہے۔ اس کاطریقہ یہ ہے کہ ایک گلاس میں تھوڑی سی مٹی ڈال کر اسے پانی میں خوب حل کریں۔ پھر گدلا پانی پھینک دیں۔ جو ریت گلاس میں نیچے بیٹھی ہوئی ملے گی اس سے اندازہ کرلیں کہ ریت میں مٹی کی کتنی آمیزش ہے۔ اچھی مٹی میں ریت او رمٹی کی مقدار برابر برابر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پودوں کو جڑوں تک ہوا او رنمی یکساں مقدار میں ملتی رہتی ہے۔
پھلواری لگانے سے پہلے مجوزہ باغیچے کی مٹی تیار کریں۔ ا س کا طریقہ یہ ہے کہ مٹی میں ریت اور گوبر کی کھاد کو مکس کر کے دو دن تک پڑا رہنے دیں۔ اس کے بعد کیاریوں یا گملوں میں یہ ملی جلی مٹی منتقل کرلیں۔ اگر آپ موسمی پھول اگانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے زیادہ موٹی تہ لگانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ موسمی پھول اپنی جڑیں زیادہ سے زیادہ دو چا رانچ تک ہی پھیلا سکتے ہیں، لیکن اگر آپ سدا بہار یا کسی او رقسم کے پودے اگانا چاہتے ہیں تو پھر مٹی کی تہہ زیادہ موٹی رکھنی پڑے گی۔ اگر آپ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کی مٹی چکنی ہے تو پھر اس مٹی میں بھل ملانا ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ چکنی مٹی میں جڑیں نشو و نما نہیں پاسکتیں۔ اچھی زمین بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کم از کم ایک فٹ تک اس علاقے کو جہاں آپ پھلواری لگانے کا سوچ رہے ہوں، الٹ پلٹ کرتے رہیں تاکہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں او رتازہ ہوا سے مٹی میں تبدیلی آسکے۔
اب آپ نے اگر مجوزہ طریقے سے زمین تیار کرلی تو نہ صرف اس زمین پر باغیچہ بنا سکتے ہیں بلکہ اگر باغیچہ بنانے کے لحاظ سے زمین کم ہے تو پھر اس مٹی کو گملوں میں بھر کر اس میں بھی پھول کھلا سکتے ہیں۔
اچھی پھلواری اگانے کے لیے دوسری چیز کھاد ہے، جو آپ بہ آسانی گھر پر بھی تیا رکرسکتے ہیں۔ اگر جگہ کم ہے تو لان کے کونے میںایک گڑھا کھود کر پتوں او رسبزیوں کے چھلکوں کو جمع کرتے جائیں۔ گڑھا کو بھرنے میں صرف دو روز ہی لگیں گے۔ گڑھے جب پتوں سے بھر جائے تو ا س پر مٹی کی کم از کم چھ انچ موٹی تہہ لگادیں اور اوپر سے پانی ڈالیں تاکہ مٹی کی نمی قائم رہ سکے۔ زیادہ پانی نہ ڈالیں کیوں کہ اس طرح سے کھاد خرا ب ہوجائے گی۔ تین سے چار مہینے میں یہ کھاد تیار ہوجائے گی۔ یہ جانچنے کے لیے کہ آیا کھاد تیار ہے کہ نہیں، درست طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد والے گڑھے کو کھود کر دیکھیں کہ ان چیزوں کی جن کے ذریعے کھاد بنائی جا رہی ہے، رنگت تبدیل ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر یہ تینوں علامات ان میں نظر آجائیں یعنی کہ ان چیزوں کی اصل مہک ختم ہو جائے، اصل رنگت تبدیل ہوجائے اور وہ بھربھری ہوجائے تو پھر سمجھیں کہ کھاد تیار ہے ۔ ورنہ کچھ دن او رانتظار کریں۔ یہ کھاد پھلواری کے لیے بہترین ہے، اگر یہ کھاد میسر نہ آسکے تو پھر گوبر کی کھاد استعمال کریں لیکن بہت تھوڑی مقدار میں، ورنہ کھاد زیادہ استعمال کرنے سے ننھے منے بیج اور نوزائیدہ پودے ختم ہو جائیں گے۔
زمین، کھاد او رمٹی کی تیاری کے بعد موسمی پھلواری کے لیے ایک اہم عمل یہ بھی ہے کہ جب تک بیج میں سے نوزائیدہ پودے نکل نہ آئیں آپ انہیں تیز دھوپ اور سردی سے بچائیں۔ بیج پر ہلکی سی تہہ ہی کھاد ملی مٹی کی ہو، زیادہ گہرائی میں بیج ڈالنے سے بھی بیج خراب ہو جاتا ہے۔ زیادہ اونچائی سے پانی نہ دیں کہ مبادا بیج گہرائی میں چلے جائیں، فوارے سے پانی دیں تاکہ یکساں پھواریں پانی پر پڑیں۔