حضرت ام سلمہؓ قبیلہ قریش کی شاخ بنو مخزوم سے تھیں، اصل نام ہند تھا ان کے والد کا نام ابو امیہ تھا جو عرب کے بہت بڑے سردار اور انسانیت نواز شخص تھے جس قافلۂ تجارت میں ہوتے اس کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے، جس کی بنا پر زاد الراکب کے نام سے مشہو رتھے۔
حضرت ام سلمہ کا پہلا نکاح عبد اللہ بن عبد الاسد اسدی سے ہوا جو رشتے میں حضرت ام سلمہ کے چچا زاد بھائی تھے او رحضورﷺ کے رضاعی بھائی بھی، جنہوں نے اسلام میں ابو سلمہ کے نام سے شہرت حاصل کی او رمشہور ترین صحابہ میں شامل ہیں۔
ظہو راسلام کے بعد حضرت ابو سلمہ ایمان لائے تو ام سلمہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق ایمان دی اور یوں یہ دونوں دولت ایمان سے مشر ف ہوئے۔
یہ جوڑا ان مسلمانوں میں شامل تھا، جنہوں نے ہجرت حبشہ کی۔ کچھ عرصہ بعد واپس مکہ چلے آئے۔ جب یہاں سے مدینہ ہجرت کرنی چاہی تو حضرت ام سلمہ کے قبیلہ نے مزاحمت کی کہ ہم اپنی لڑکی کو مدینہ نہیں جانے دیں گے۔ جس کی بنا پر بنو عبد الاسد ام سلمہ کو سلمہ سے چھین کر لے گئے کہ اگر تم اپنی لڑکی کو ابو سلمہ کے ساتھ نہیں جانے دیتے تو ہم بھی اپنے بچے کو تمہاری لڑکی کے ساتھ نہیں رہنے دیں گے۔حضرت ام سلمہؓ کے بیان کے مطابق ایک سال کی مسلسل آہ و زاری کے بعد میرے قبیلہ والوں نے مجھے ابو سلمہ کے پاس مدینہ جانے کی اجازت دی او ربنو عبد الاسد نے بھی بچہ واپس کردیا، یوں یہ تنہا ہی مکہ سے مدینہ روانہ ہوئیں۔
مقام تنعیم پر حضرت ام سلمہ کو عثمان بن ابو طلحہ کلید بردار کعبہ مل گئے جنہوں نے آپ کے تنہا سفر پر حیرت کا اظہار کیوں کہ شرفا کی عورتیں اس طرح سفر نہیں کیا کرتی تھیں۔
جب آپ نے سارا ماجرا بیان کیا تو یہ ساتھ ہو لیے او رکمال شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے مسجد قبا تک پہنچایا ان کی اس شرافت سے حضرت ام سلمہ اتنی متاثر ہوئیں کہ ساری زندگی ان کی تعریف کیا کرتی تھیں۔
مدینہ کے قریب عثمان انہیں تنہا چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئیں تو لوگوں نے آپ سے نام ونسب پوچھا۔ جب آپ نے بتایا کہ میں ابو امیہ کی لڑکی ہوں تو لوگوں کو ان کے تنہا سفر اور ابوامیہ کی عظمت کے پیش نظر اس بات کا یقین نہ آیا۔ یہاں تک کہ فتح مکہ کے دن جب آپ کے گھر والے آپ کے رقعہ پر ملنے آئے تو لوگوں کو اس بات کا یقین آیا۔
حضرت ام سلمہؓ پہلی خاتون ہیں جو مدینہ میں ہجرت کر کے داخل ہوئیں۔ حضرت ام سلمہؓ کی ابو سلمہ سے چا راولادیں ہوئیں۔ سلمہ، زینت، درہ، عمر۔ ان میں سے درہ وہ خاتون ہیں جن کے متعلق ایک مرتبہ یہ افواہ اڑ گئی کہ حضور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، جس کی حضورﷺ کو باقاعدہ تردید کرنا پڑی۔
جنگ احد میں ابو سلمہ کو شدید زخم آئے، جن کی بنا پر کچھ عرصہ بعد ان کی وفات ہوگئی۔ حضرت ام سلمہؓ کو شدید صدمہ ہوا، حضورؓ تشریف لائے تو وہ رو رہی تھیں۔ آپؐ نے تسلی دی اور فرمایا کہ کہو یا اللہ ان سے بہتر شوہر عطا فرما۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ پر آپ نے نو تکبیریں پڑھیں۔ استفسار پر فرمایا کہ یہ ہزار تکبیر کے مستحق تھے۔
ام سلمہؓ کی خاوند سے محبت
حضرت ام سلمہؓ کو ابو سلمہ سے بہت محبت تھی جس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ ابو سلمہؓ سے یہ عہد کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر ہم میں سے کوئی مرجائے تو دوسرا شادی نہیں کرے گا لیکن ابو سلمہ نہ مانے۔
جب ابو سلمہ فوت ہوئے تو حضورﷺ نے انہیں ارشاد فر مایا کہ تم یہ دعا پڑھا کرو۔
اللہم اجرنی فی مصیبتی و اخلفنی خیرا منھا… ’’اے اللہ میری مصیبت کا مجھے اجر عطا فرما او راس سے بہتر صورت حال لا۔ حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ جب میں نے یہ دعا پڑھی تو میری کیفیت یہ ہوتی کہ میں دل میں کہتی کہ اے اللہ مجھے ام سلمہ سے زیادہ بہتر بدل دے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے محمدؐ عطا فرمائے۔
نکاح ثانی
حضرت ابو سلمہؓ کی وفا ت کے وقت حضرت ام سلمہؓ حاملہ تھیں۔ بعد وضع حمل کے سید نا صدیق اکبر اور فاروق اعظم نے پیغام نکاح دیا۔ مگر آپ نے قبول نہیں۔ کیا جب رسول اللہﷺ نے پیغام دیا تو آپ نے فرمایا کہ مرحبا رسول اللہﷺ لیکن آپ نے تین عذر رکھے۔ (۱) یہ کہ میں بہت غیرت مند ہوں (۲) میرے بچے ہیں (۳) یہ کہ میرے عزیز و اقارب میں سے کوئی میرا نکاح کرنے والا نہیں۔ حضورؐ نے تینوں کا حل تجویز فرمایا اور یوں ۳ ہجری کو شوال کے مہینے میں حضورﷺ سے نکاح ہوا۔
صائب الرائے
آپ بہت صائب الرائے تھیں، جس کا اندازہ آپ کے اس بے نظیر مشورہ سے ہوتا ہے جو آقائے دو عالمﷺ کو آپ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر دیا۔
جب لوگ آپ کے بار با رکہنے کے باوجود معاہدے کی شرائط کے سلسلہ میں شدید صدمہ محسو س کرتے ہوئے قربانی کے لیے نہ اٹھے تو آپ حضرت ام سلمہؓ کے پاس آئے او رباہر کی صورت حال بتائی حضرت ام سلمہؓ نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں تو آپ نکلئے اور کسی سے بات کیے بنا قربانی کیجئے اور سرمنڈائیے۔ پھر آپ نکلے او رکسی سے بات کیے بنا یہ سب کر ڈالا۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو وہ بھی اٹھے اور قربانی کی او رایک دوسرے کے سر مونڈے۔‘‘
حضرت ام سلمہؓ کا مشورہ اس قدر صحیح تھا کہ امام الحرمین یہ کہنے پر مجبو رہوئے۔
’’ام سلمہ سے بڑھ کر صحیح رائے رکھنے والی عورت ہم نے نہیں دیکھی۔‘‘
وفات
حضرت ام سلمہؓ کے سن وفات میں اختلاف ہے بعض اٹھاون، بعض ساٹھ لیکن اکسٹھ ہجری کی طرف زیادہ رجحان ہے۔
حضرت ام سلمہؓ کا علمی پایہ و خدمات
حضرت ام سلمہؓ کا علمی پایہ ازواج مطہرات میں حضرت عائشہؓ کے بعد سب سے بلند اور دیگر صحابیات میں تو سب سے زیادہ تھا۔
طبقات ابن سعد میں محمود بن لبید کے قول سے اندازہ ہوتا ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت عائشہ کی طرح حصول علم میں بہت کوشاں رہا کرتی تھیں۔ محمود کا کہنا ہے:
’’ازواج رسولؐ آپ کی احادیث کو محفوظ کرنے میں لگی رہتی تھیں اور عائشہؓ و ام سلمہ ان میں بے مثال ہیں۔‘‘
اس کوشش کا نتیجہ یہ تھا کہ ام سلمہؓ رواۃ حدیث کے تیسرے طبقہ میں ہیں جو حضرت عائشہؓ کے بعد کسی بھی صحابیہ کا سب سے بلند طبقہ ہے او رفقہی اعتبا رسے صاحب فتویٰ صحابہ کے طبقہ ثانیہ میں شامل ہیں۔
مرویات کی تعداد
آپ سے کل احادیث جو روایت کی گئیں ان کی تعداد ۳۸۷ ہے، ان میں سے ۲۹ احادیث بخاری و مسلم میں ہیں اور متفق علیہ احادیث کی تعداد ۱۳ ہے۔ تین احادیث میں بخاری منفرد ہیں۔ جب کہ ۱۳ احادیث میںمسلم کو انفرادیت حاصل ہے۔
فقہ میں مہار ت
جیسا کہ قبل ازیں مذکور ہوا کہ یہ فقہاء صحابہ کے طبقہ ثانیہ میں شامل ہیں او ران کے فتوؤں سے ایک رسالہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے فتوؤں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ عموماً متفق علیہ ہیں۔ جو آپ کی نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی پر دال ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر عصر کے بعد دو نفل پڑھا کرتے تھے۔ مروان نے وجہ پوچھی تو آ پ نے فرمایا کہ حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کیا جائے، حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا گیا تو آ پ نے حضرت ام سلمہؓ کا حوالہ دیا۔ جب ام سلمہؓ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایاکہ: ’’اللہ تعالیٰ عائشہؓ کی مغفرت کرے۔ انہوں نے میری بات کو غلط جگہ رکھ دیا۔ کیا میں نے انہیں نہیں بتایا تھا کہ اللہ کے رسولؐ نے اس سے ر وکا ہے۔‘‘
علم اسرار دین
حضرت عائشہؓ کی طرح حضرت ام سلمہؓ کو بھی اسرار دین میں ملکہ حاصل تھا، جس میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو خصوصیت حاصل تھی۔
ایک مرتبہ آپ سے حضرت عبد الرحمن بن عوف ملنے آئے تو آپ نے فرمایا: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے بعض صحابی ایسے ہیں کہ انتقال کے بعد میں انہیں دیکھوں گا، نہ وہ مجھے دیکھ سکیں گے۔ حضرت عبد الرحمنؓ گھبرا کر حضرت عمرؓ کے پاس گئے تو حضرت عمرؓ بھاگے بھاگے آئے او رپوچھا کہ سچ بتانا کیا میں بھی ان میں سے ہوں تو آپ نے فرمایا نہیں، لیکن تمہارے علاوہ میں کسی کو مستثنیٰ نہ کروں گی۔
تلامذہ ام سلمہ
حضرت ام سلمہؓ سے اخذ علم کرنے والوں کی تعداد نہ جانے کتنی ہوگی۔ صرف وہ لوگ جو حدیث میں آ پ سے استفادہ کرتے تھے او ران کے نام کتب میں مذکور ہیں، ان کی تعداد عمر قضا کحالہ کے مطابق ’’ ۳۳‘‘ ہے جب کہ الاصحابہ میں ’’۱۵‘‘ افراد کے نام درج ہیں، جن میں جہاں صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ابو سعید بن مسیبؓ وہاں جلیل القدر تابعین میں حضرت سعید بن مسیبؓ جیسے فقیہ اور عروہ بن زبیر جیسے صاحب علم نافع۔ یحییٰ بن کریب قبیصہ بن زویب جیسے عظیم ترین محدث شامل ہیں۔
اس سے انداز ہ ہوسکتا ہے کہ امت مسلمہ کی بعد کی علمی ترقی جو ان حضرات تابعین کی وجہ سے ہوئی اس میں اس عظیم خاتون کا کتنا حصہ ہے۔
پھر یہ کہ آپ کے تلامذہ کی فہرست گنوانے کے بعد تمام تذکرہ نگار یہ کہتے ہیں کہ آپ کے تلامذہ کی تعداد صرف یہی نہیں ہے۔
ایک خاص خدمت
ایک عالم ربانی کے فرائض میں جہاں بذریعہ علم لوگوں کی تربیت کرنا ہے وہاں اپنے علم کی روشنی میں حکمراں کو ان کی کوتاہیوں پر ٹوکنا بھی ہے۔ حضرت ام سلمہؓ نے یہ فریضہ بخوبی ادا کر دیا۔ چناں چہ آپ کی زندگی میں حکمرانوں نے نماز کے مستحب اوقات میں تغیر و تبدل کیا تو آپ نے انہیں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’رسول اللہﷺ ظہر جلدی پڑھا کرتے تھے اور تم عصر جلدی پڑھتے ہو۔‘‘
جب حضرت امیر معاویہ کے دور میں حضرت علیؓ پر سب و شتم برسر منبر ہونے لگا تو آپ نے امیر معاویہ کو خط لکھا: ’’تم اللہ او ررسول کو برسر منبر برا بھلا کہتے ہو اور تم علی بن ابو طالب کو نشانہ لعنت و ملامت ٹھہراتے ہو اور ہر اس شخص کو جو ان سے پیا رکرتا ہے۔ میں ذاتی طو رپر اس بات کی گواہ ہوں کہ خدا اور اس کا رسولﷺ علیؓ سے محبت کرتے تھے۔‘‘lll