ملک میں واقع ہونے والی حالیہ سیاسی تبدیلی بہت سارے لوگوں کے لئے غیر متوقع اور حیرت انگیز تھی۔ سابق حکمراں پارٹی کو اس قدر ذلت آمیز شکست کا منھ دیکھنا پڑے گا، اس کا اندازہ نہ تو اسے تھا اور نہ ہی اس کے ہمنواؤں کو۔ مگر وہ اپنی ناکامیوں کے سیلاب میں ایسی بہی کہ کوئی سہارانہ مل سکا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ وہ کوئی مضبوط تو کیا قانونی اپوزیشن پارٹی بھی باقی نہ رہ سکی۔
اقتدار کی تبدیلی جمہوریت میں تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ یہاں سیاسی پارٹیاں دن اور رات کی طرح مسنداقتدار پر آتی اور جاتی رہتی ہیں۔ مگر ایک مضبوط، پرانی اور برسراقتدار پارٹی کا یہ حشر ہوگا اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے بہت سے ذہن ابھی تک تیار نہیں۔ اس سیاسی تبدیلی سے مسلم عوام میں بھی خاصی بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ بے چینی بے وجہ اور بے سبب نہیں۔ موجودہ حکمراں پارٹی جس نظریاتی گروہ کا سیاسی پلیٹ فارم ہے اس کی بنیاد ہی اقلیتوں کے خلاف شدت پسندانہ رویے پر ہے۔ چنانچہ انتخابات سے پہلے بھی فرقہ وارانہ فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب اگرچہ اس کا سلسلہ بہ ظاہر تو رکا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر ساتھ ہی اس ذہنیت کی ہم نواذیلی تنظیمیں جس طرح اقلیتوں کو دہشت زدہ کررہی ہیں اس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کے سلسلہ میں اپنے ایجنڈے کو یک سر تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ بھی صاف ہے۔ اب تک یہ اندازہ لگایا جاتا تھا کہ ملک میں مضبوط حکومت مسلمانوں کے ووٹ کے بنا نہیںبن سکتی۔ اب یہ خیال غلط ثابت ہوگیا اور برسراقتدار جماعت نے کمال دانشمندی سے مسلم ووٹ کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر ایک طرف کردیا اور اکثریتی حکومت بنا کر نہ صرف کسی بھی قسم کے عدم استحکام کے خطر ے کو کنارے لگادیا بلکہ کسی موثر اپوزیشن کو بھی باقی نہ رہنے دیا۔ اترپردیش جیسی بڑی ریاست میں جہاں لوگوں کا خیال تھا کہ نئی حکمراں پارٹی کے قدم دوبارہ نہیں جم سکتے وہاںپر بھی اس نے 70 سیٹیں جیت کر بہوجن سماج پارٹی جیسی مضبوط دلت سیاسی طاقت کو دھول چٹادی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا ووٹ’سولڈ‘ ہے اور وہ کہیں بھی اور کسی بھی حال میں ادھرسے ادھر نہیں ہوسکتا۔ اس الیکشن میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی کی قیادت کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی ہوشیاری اور سیاسی فراست کا استعمال کرتے ہوئے محض 31% فیصد ووٹ کو اس طرح سیٹوں میں تبدیل کیا کہ باقی 69% ووٹ کے ’سمی کرن‘ دھرے کے دھرے رہ گئے اوروہ صرف 31% ووٹ کی بنیاد پر واضح اکثریت والی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
انتخابات کے نتائج آجانے اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سے اب تک سیاسی تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں سے کچھ تجزیہ نگار اس بات کا اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ موجودہ حکمراں طبقہ کے ذریعہ ملک کے سیکولرڈھانچے کو نقصان لاحق ہوسکتا ہے جبکہ اکثریت کا خیال یہ ہے کہ ملک کے جملہ با شندگان میں سے 60-65% عوام نے ہی حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے اور ان میں سے محض31%ووٹ موجودہ حکمراں طبقہ کو ملا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ69%ووٹ برسراقتدار پارٹی کے خلاف ہے۔ رہے وہ لوگ جنھوںنے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تو انہیں نیوٹرل مان لیا جائے ہاں اگر انہیں بھی مخالف تصور کرلیا جائے تو یہ تناسب کافی بڑھ جاتا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں جبکہ انہیں محض ایک تہائی سے بھی کم ووٹ ملے ہیں، وہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ انہیں دو بارہ عوام کے پاس جاکر ووٹ حاصل کرنا ہے۔
ہماری اس بحث کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ہم بھی عام تجزیہ نگاروں کی طرح تجزیہ کرکے مستقبل کی پیش گوئی کریں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے سامنے غوروفکر کے لیے کچھ نکات رکھیں تاکہ وہ خوف اور اندیشوں کی نفسیات سے نکل کر کھلی فضا میں سوچنے اوراپنا سیاسی مستقبل سنوارنے کی کوشش کرسکیں۔
موجودہ حکومت ایک بڑے نظریاتی گروہ کے سیاسی پلیٹ فارم کی حکومت ہے۔ اور یہ نظر یاتی گروہ اپنے مذہبی اور گروہی مفادات کے سلسلہ میں قدرے شدت پسند جانا جاتا ہے۔ ایسے میں اس بات سے یکسر انکار تو ممکن نہیں کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد اپنے نظریاتی ایجنڈے کوبالکل نافذ کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی نظریاتی گروہ جب اقتدار میں آجاتا ہے تو اس کی اپنی حدود اور مصلحتیں ہوتی ہیں جن کا خواہی نہ خواہی اسے لحاظ کرنا ہی پڑتا ہے۔ اب اس کے لئے دومیں سے کوئی ایک راستہ بچ رہتا ہے کہ یا تو وہ اپنی نظریاتی آمریت کے ذریعہ ملک کے عوام کو خود سے بددل کردے یا نظریاتی ایجنڈے سے زیادہ ملکی عوام کے فکر کرتے ہوئے ان کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تعلیمی مسائل اور ان کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کردے۔ دوسری صورت میں وہ اپنی نئی امیج بناکر مقبولیت حاصل کرسکتا ہے اور پہلی صورت میں عوامی ردعمل کا شکارہو کر اقتدار سے بے دخل بھی ہوسکتا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم دیکھتے اور اب تک کے بیانات پر نظر ڈالتے ہیں تواندازہ ہوتاہے کہ نریندرمودی ملک اور ملک کے سوا سو کروڑ عوام کے وزیر اعظم ہونے کی بات کہتے ہیں اور وہ ملک اور اس کے عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوششوں کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ نریندرمودی ملک کے وزیر اعظم بن کر اپنی اس غلط شبیہ کو بھی صاف کرنے کی کوشش کریں گے جس کے سبب ملک کا ایک بڑا طبقہ انہیں سیاسی اچھوت سمجھتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو مندر مسجد اورملا پنڈت جیسے فرقہ وارانہ مسائل سے کہیں زیادہ سنگین اور پیچیدہ مسائل درپیش ہیں۔ ملک میں بڑھتے جرائم، مختلف سطحوں پر پھلتاپھولتا کرپشن اور معاشی بدحالی ایسے مسائل ہیں جن کے پیش نظر ملک کے عوام نے ایک تبدیلی اور ملک کی ترقی کے دعوے داروں کو اس امید میں ووٹ دیا ہے کہ شاید یہی لوگ ملک کی نیا کو موجودہ مسائل کے بھنور سے نکال کر کنارے لاسکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے عوام نے سنگھ کے نظریات کو نہیں بلکہ’’ اچھے دنوں‘‘ کے لئے ترقی کی امیدوں کو ووٹ دے کر برسراقتدار گروہ کو ایک امتحان میں ڈالا ہے۔ اور اس کا انہیں بھی احساس ہے اس لئے وہ عوام کو کچھ دینے(ڈیلیور کرنے) کی سنجیدہ کوششیں کریںگے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنگھ کی نظریاتی ہمنوائی کرنے والے چھوٹے چھوٹے گروہ ماحول کو خراب کرنے کوشش کررہے ہیں جیساکہ مہاراشٹر کے شہر پونے میں محسن شیخ کے معاملہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کو نہ تو مشتعل ہونا چاہئے اور نہ ہی مایوس۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ گروپ خود اپنی نظریاتی چھتری کے لئے وبال جان بن کر اس کی شبیہ کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔ اس لئے اس بات کی قوی امید ہے کہ موجودہ حکومت ان کے گرددائرہ کھینچ کر ان کی حدود متعین کردے گی اور یہ عین ملک اور حکمراں جماعت کے مفاد میں ہوگا۔
موجودہ سیاسی تبدیلی کے سلسلے میں مسلم قیادت پر تنقید بھی بے فائدہ ہے۔ اس لئے کہ مسلم جماعتوں میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو خود بھی سیاسی کنفیوزن کا شکار ہیں اور اپنے افراد کو بھی وہ سیاسی طورپر کنفیوز اور بے اثر بنا ڈالنے پر تلے ہیں جب کہ دوسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو محض چند ذاتی مفادات کے لئے سیاسی پارٹیوں کے پچھ لگوبن کر اپنی وفادار یاں بیچ دیتے ہیں۔ دونوں ہی قسم کے افراد سے کسی خیر کی امید کرنا بڑا دشوار ہے۔ البتہ اس بات کی قوی امید ہے کہ اب امت کے عام افراد ناموافق حالات میں اچھی زندگی جینے اور ترقی وبیداری کا ایجنڈا بنانے کا فن شاید سیکھ جائیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم قیادت کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے باہمی اختلافات کو کنارے رکھ کر ملت اسلامیہ ہند کو کوئی ایسا تعمیری ایجنڈا فراہم کرنے کی اہل ہوجائے کہ وہ روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوسکیں۔
اس موقع پر ہم ہندوستانی مسلمانوں سے یہ ضرور کہیں گے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اللہ کی کتاب سے جوڑیں جو حکمت کا خزانہ اور زندگی کو اندھیروں سے اجالوں کی طرف لے جانے والی ہے۔ یہ کتاب ہمیں مخالف حالات میں نہ صرف جینے کا فن سکھاتی ہے بلکہ مغلوبیت سے نکال کر غلبہ اور اقتدارتک پہنچنے کے گر بھی بیان کرتی ہے۔ ضرورت صرف اس کی طرف پلٹنے کی ہے۔