عَنْ عُبَیْدٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی عاَئِشَۃَ اُمِّ الْمُوْمِنِیْنَ فَقَالَتَ اَمْسِکْ حَتّٰی اَخِیْطَ نَقْبَتِیْ فَاَمْسَکْتُ فَقُلْتُ یَا اُمَّ الْمُوْمِنِیْنَ لَوْ خَرَجْتُ فَاَخْبَرْتُہُمْ لَعَدُّ وا مِنْکِ بُخْلاً قَالَتْ اَبْصِرْ شَانَکَ اِنَّہٗ لَا جَدِیْدَ لِمَنْ لاَ یَلْبَسُ الْخَلَقَ (الادب المفرد، باب الرفق فی المعیشۃ، ص:۸۶)
’’(بروایت عبید) کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا، ذرا ٹھیر جاؤ میں پیوند لگالوں، میں ٹھیر گیا، پھر میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا، اگر میں باہر جاکر آپ کے اس عمل کی اطلاع کردوں تو وہ آپ کے اس طرزِ عمل کو بخل قرار دیں گے۔ آپ نے فرمایا، اپنے حال پر نظر رکھو، (یعنی جتنی چادر ہو اتنے ہی پاؤں پھیلاؤ) نیا لباس اس کے لیے نہیں ہے جو پرانا کپڑا پہننے میں عار محسوس کرتا ہو۔
اس روایت میں ان خواتین کے لیے سبق ہے جو محض اپنی پوزیشن بنانے اور معاشرے میں نکو بننے سے بچنے کے لیے آمدنی سے زیادہ لباس او ررہائشی تکلّفات میں خرچ کر ڈالتی ہیں او رانہیں قطعاً اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کہیں پوزیشن بنانے کی یہ لت ان کے مردوں کا دیوالیہ ہی نہ نکال دے۔
اس ارشاد میں بھی حضرت عائشہؓ نے اس غلط ذہنیت کی اصلاح فرمائی ہے۔ جو انسان کو محض دکھاوے کی خاطر بساط سے زیادہ خرچ کرکے اپنے اوپر معاشی بوجھ بڑھاتی ہے۔lll