خواتین و حضرات! آج کے اردو اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے، جس میں ہمارے علاقے کے ایم ایل اے صاحب نے کہا ہے کہ میں اپنے علاقہ کے قبرستان کو ’’مثالی قبرستان‘‘ بناؤں گا۔ اس کی افتتاحی تقریب کی رپورٹ اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ چھپی ہے۔ یہ مثالی قبرستان کیسا ہوگا؟ اس کی ایک جھلک ہم آپ کو ضرور دکھانا چاہیں گے تاکہ آپ سب بعد از مرگ یہاں آنے کی تمنا کریں بلکہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے جان بھی دی جاسکتی ہے۔ ہمارا یہ قبرستان کئی معنی میں مثالی ہوگا۔
ہمارے قبرستان میں قبریں کشادہ ہوں گی، ہر قبر کے ساتھ ایک ڈرائنگ روم کی سہولت ہوگی تاکہ گور غریباں کے باشندگان میں سے کوئی آپ کا مہمان ہوجائے تو اس کے قیام و آرام کے لیے ڈرائنگ روم کام آئے۔ وضو خانہ اور غسل خانہ کا اہتمام رہے گا۔ دو بڑے بڑے ہال تعمیر کیے جائیں گے تاکہ ساکنان گور غریباں اپنی اجتماعی تقریبات منعقد کرسکیں، ہمارے قبرستان میں روشنی کے لیے CFLلگوائی جائیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ صاحب قبر زندگی بھر بجلی کی آنکھ مچولی سے پریشان رہے ہوں لیکن انہیں قبر میں بجلی کی کوئی شکایت نہ رہے گی۔ یہ مثالی قبرستان صاف ستھرا ہوگا، یہاں گندگی نہ ہوگی، یہ اگرچہ مسلم قبرستان ہوگا لیکن مسلم محلوں کے برعکس نہایت نفیس و جاذب نظر ہوگا۔ مسلم محلوں میں تو آپ ناک پر رومال ڈال کر نکلتے ہیں حالاں کہ آپ کب تک ناک بند رکھیں گے، زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ہی ہوگا اور بدبو سے لطف اندوز ہونا ہی ہوگا کیوں کہ یہ گندگی کہیں کہیں نہیں ہوتی، بلکہ کہیں کہیں گندگی نہیں ہوتی۔ لہٰذا بعد وفات میت کو خوشبو سے معطر رکھنے کے لیے یہاں گلاب، بیلا، چمیلی کے پودے بھی لگائے جائیں گے۔
مثالی قبرستان کی ایک خوبی یہ ہوگی کہ یہاں مردوں کے حسب ذوق اسباب فراہم کیے جائیں گے۔ زاہدان خشک کے لیے تسبیح کے دانے اور مصلے ہوں گے، واعظین اور خطیب حضرات کے لیے بے عقل سامعین ہوں گے، شعراء کے لیے کوچہ جاناں ہوگا، رندوں کے لیے شراب طہور کے جام ہوں گے۔ اس مثالی قبرستان میں ٹی وی، پروجیکٹر اور بڑے پردے کا نظم بھی ہوگا، تاکہ ساکنان قبر اپنی بوریت دور کرنے کے لیے تفریح طبع کرسکیں۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں نیٹ کی سہولت بھی IT پروفیشنلز کو دی جائے گی لیکن اس کی رینج صرف زیر زمین ہی ہوگی۔ واضح رہے کہ موجودہ سہولیات مثلاً قبروں پر چڑھ کر پتنگ اڑانا، کرکٹ کھیلنا وغیرہ باقی رکھی جائیں گی۔
البتہ اس مثالی قبرستان میں کسی مولوی، یا مولوی نما شخص کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی، کیوں کہ مولوی صاحب جیسے ہی قبرستان میں قدم رکھیں گے وہاں مسلک اور فرقہ بندی کی بحث چھڑ جائے گی اور ہمارا قبرستان مختلف فرقوں میں تقسیم ہوجائے گا اس طرح تنازعات کا شکار ہوکر غیر مثالی ہو جائے گا۔
مثالی قبرستان کی چہار دیواری یعنی باؤنڈری لال پتھر کی محراب نما ہوگی اور قبریں مغل فن تعمیر پر ڈیزائن کی جائیں گی۔ جس میں پہنچتے ہی خود کوشہنشاہیت کا احساس ہوگا، قبریں اس قدر خوش نما بنائی جائیں گی کہ لوگ جینے سے زیادہ مرنے کی تمنا کریں گے۔ اگر تمام ہندوستان کے قبرستان اور مرگھٹ ہمارے مثالی قبرستان کی طرح مثالی بنا دیے جائیں تو یقین جانئے ملک کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ہمارے ملک میں بڑھتی آبادی ایک بڑا مسئلہ ہے، اگر قبرستان مثالی ہوں گے اور وہاں دنیا سے بہتر سہولت فراہم کی جائے گی تو لوگ دنیا کے مقابلے قبرستان جانا پسند کریں گے اور اس طرح ہماری آبادی کنٹرول ہوجائے گی۔
ہمارے مثالی قبرستان کی ایک بڑی خوبی یہ ہوگی کہ ہر قبر میں مائکرو فون لگایا جائے گی، اس کا ایک حصہ قبرستان کے دفتر میں ہوگا، دفتر میں ایک عربی داں کی خدمات ہمہ وقت رہیں گی، جیسے ہی کوئی میت قبر میں اتاری جائے گی اور بعد تدفین منکر نکیر وہاں آئیں گے اور وہ صاحب قبر سے سوالات کریں گے تو ان کے جوابات دفتر قبرستان میں تشریف فرما مولوی صاحب دیں گے۔ اس طرح منکر نکیر کو سوالوں کے جواب مل جائیں گے اور صاحب قبر کی جاں بخشی ہوجائے گی۔
ہمارے قبرستان میں ایصالِ ثواب کا نظم جدید تقاضوں کے تحت ہوگا۔ اگر کوئی وارث میت کو ثواب پہنچانا چاہے گا تو یہ سہولت انٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل رہے گی۔ مثلاً آپ ایک قرآن مجید پڑھوانا چاہتے ہیں، آپ قبرستان کے دفتر بذریعہ ای میل اپنی یہ خواہش یا درخواست ارسال کردیں گے، اس میں میت کی پوری تفصیلات ہوںگی، اس کے بعد آپ متعینہ فیس جمع کریں گے، آپ یہ بھی بتائیں گے کہ شیخ سدیس کی آواز میں قرآن پڑھنا ہے یا شریم کی، یا کسی ملکی قاری کی خدمات حاصل کرنا ہیں، بہرحال ہر کسی کی فیس الگ ہوگی۔ متعین فیس کی وصولیابی کے ساتھ یو ٹیوب کے ذریعے تلاوت کی آواز قبر میں گونجنے لگے گی۔ اس طرح میت کو صرف ثواب ہی نہیں بلکہ پورا قرآن پہنچ جائے گا۔
میرے ہم سفرو! قبرستان تو ہم سب کو جانا ہی ہے چاہے ہم چاہیں یا نا چاہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے حصہ میں مثالی قبرستان آتا ہے یا غیر مثالی، ایسا بھی کوئی قبرستان ہمارے حصہ میں آسکتا ہے جس پر چند برسوں بعد DDAقبضہ کر لے اور ہم مقبوضہ قبرستان کا جز ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے وارثین کی بدنصیبی ہوگی کہ وہ فاتحہ خوانی سے بھی محروم رہ جائیں گے، اس لیے ہم اپنے مثالی قبرستان میں ایصالِ ثواب کی اس سہولت پر بھی غور کر رہے ہیں کہ مقبوضہ قبرستان کے باشندگان جن کی دہلی میں تعداد لاکھوں سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ دہلی میں آزاد قبرستان کے بالمقابل مقبوضہ قبرستان بہت ہیں ان تک بھی ثواب پہنچایا جاسکے، اس کے لیے ضروری ہوگا کہ میت کے نام پہلے سے ’آخرت ثواب اکاؤنٹ‘ کھلا ہوا ہو، تاکہ امپورٹیڈ ثواب اس اکاؤنٹ میں ڈالا جاسکے۔ جس میت کا بیلنس Nil ہوگا، اس کو یہ سہولت حاصل نہ ہوگی۔ اگر غلطی سے کسی وارث نے Nilبیلنس میں ایصالِ ثواب کی کوشش کی تو محکمہ انکم ٹیکس کے آفیسران اس ثواب کو روک لیں گے۔ اس لیے آپ حضرات قبرستان روانگی سے قبل اپنے آخرت ثواب اکاؤنٹ میں ثواب کی اتنی مقدار ضرور جمع کرا دیں کہ اکاؤنٹ جاری رہے۔
بھائیو اور بہنو! اس مثالی قبرستان میں سیٹیں بہت محدود ہیں، اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ آج ہی اپنی سیٹ ریزرو کروالیں کیوں کہ ابھی سیٹ ریزرویشن میں خصوصی رعایت دی جا رہی ہے۔ ہم ایم ایل اے صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے زندوں کے لیے اگرچہ کوئی مثالی کام نہ کیا ہو لیکن مردوں کے لیے مثالی قبرستان بنوا کر اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بشمول ایم ایل اے صاحب اس مثالی قبرستان میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین!lll