س: اگر کوئی نوجوان شخص کسی نوجوان لڑکی سے ٹیلیفون پر (چاٹنگ) بلا ضرورت گفتگو کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اجنبی عورت کے ساتھ ٹیلیفون پر یا کہیں اور بلا ضرورت گفتگو جائز نہیں چہ جائے کہ عشق بازی کی بات کی جائے بلکہ کسی اجنبی سے نرمی و ناز و ادا سے ہم کلام ہونا بھی جائز نہیں ہے، اس کی دلیل قرآن کا ارشاد ہے:
’’پس نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ کوئی برا خیال کرے (اور تمہاری طرف اس کا میلان ہوجائے)۔‘‘
موجودہ زمانے میں موبائل کمپنیوں اور انٹرنیٹ نے نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور انہیں اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھ کنڈے اپنانے ہیں، انہی میں ایک موبائل اور انٹرنیٹ چاٹنگ بھی ہے جس کے مفاسد اور نتائج آئے دن اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔
اس لیے مشورہ دیا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے اور بااخلاق نوجوان لڑکے لڑکیوں کا یہ شیوہ نہیںکہ وہ اجنبی افراد سے لغو اور فضول چاٹنگ کریں۔
لیکن کسی ضرورت کے تحت گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطے کہ اس میں مفاسد کا شائبہ نہ ہو نیز یہ کہ بقدر حاجت ہو۔ (ایڈیٹر)
شوہر کا انتخاب کس بنیاد پر ہو؟
س: کن اہم اوصاف کے حامل کو لڑکی اپنا شوہر منتخب کرے؟ اور کیا دنیوی مقاصد کے لیے صالح اور نیک شوہر کو مسترد کردینے کی پاداش میں لڑکی کو عتابِ الٰہی کا سامنا کرنا پڑے گا؟
ج: سب سے اہم اوصاف جن کی بنیاد پر عورت شادی کا پیغام دینے والے کا انتخاب کرے وہ اخلاق اور دین داری ہے، اس سلسلے میں مال و دولت اور حسب و نسب کی حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے، سب سے اہم چیز یہ ہے کہ پیغام دینے والا دین دار اور بااخلاق ہو، کیوں کہ دین دار اور بااخلاق آدمی سے عورت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اگر اس کو اپنی زوجیت میںرکھے گا تو بھلے اور خوش آئند طریقے سے رکھے گا اور اگر اس کو طلاق دے گا تو اچھے ڈھنگ سے اس کو رخصت کردے گا، نیز دین دار اور بااخلاق آدمی اس کے اور اس کی اولاد کے لیے باعث خیر و برکت ہوگا، اس سے اس کو اخلاق اور دین کا سبق ملے گا، لیکن اگر وہ اس کے برعکس ہے تو پھر عورت اس سے اپنا دامن بچالے بالخصوص ان لوگوں سے جو نماز کی ادائیگی سے غفلت برتتے ہیں یا جن کی شراب نوشی معلوم ہے۔ جو کبھی نماز نہیں پڑھتے وہ کافر ہیں، نہ تو مومن عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں، اہم چیز یہ ہے کہ اخلاق اور دین داری عورت کے مدنظر رہے، اگر دین داری کے ساتھ حسب و نسب والا بھی ہے تو زہے نصیب، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے یہاں کوئی ایسا شخص رشتہ کرنے کے لیے آئے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کے ساتھ نکاح کردو۔‘‘
شادی سے پہلے تعلقات
س: دینی نقطہ نظر سے ان تعلقات کی حیثیت کیا ہے؟
ج: فتویٰ پوچھنے والی کا یہ کہنا کہ ’’شادی سے پہلے‘‘ اگر اس کی مراد اس سے رخصتی سے پہلے اور عقد نکاح کے بعد ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ عقد کرنے سے وہ اس کی بیوی ہوجاتی ہے اگرچہ رخصتی کی رسم ادا نہیں ہوئی، لیکن اگر فتوی پوچھنے والی کی مراد عقد نکاح سے پہلے منگنی کے دوران یا اس سے پہلے تعلقات اور میل ملاپ ہے تو یہ حرام ہے، کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اجنبی عورت سے گفتگو، نظر یا خلوت کے ذریعے لطف اندوزی کرے، نبیؐ نے فرمایا: ’’ہرگز کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ بغیر محرم کے خلوت نہ کرے اور کوئی عورت بغیر کسی محرم کے سفر نہ کرے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ اگر یہ میل ملاپ عقد کے بعد ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر عقد سے پہلے ہو خواہ منگنی کے بعد تو وہ ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ جب تک اس عورت سے اس شخص کا عقد نکاح نہ ہوجائے وہ ایک اجنبی عورت ہے۔lll (شیخ ابن عثیمین)