کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگراں اور محافظ ہے۔ اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کے بارے میںپوچھا جائے گا جو تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہوں گے۔ امیر بھی نگراں ہے اور اس سے مامورین کے سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اور مرد نگراں ہے اہل خاندان کا اور عورت شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے پس تم سے ہر ایک نگران ہے اور زیر نگرانی لوگوں سے متعلق اس سے پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
عورت بنیادی طور پر گھر اور گھر والوں سے متعلق امور کی ذمہ دار ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو ایک بس میں ڈرائیور کی ہوتی ہے۔ وہ جس طرح اور جس انداز سے اسے چلانا چاہیے چلائے گی اور چلا سکتی ہے۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانا بھی محنت، لگن اور سلیقہ مندی کا طالب ہوتا ہے۔
گھر چلانا، سنوارنا اور اسے خوشنما اور اہل خانہ کے لیے محبت بھرا بنانا آسان کام نہیں۔ گھر کے کاموں کو وقت پر اور بہترین انداز میں انجام دینا، گھر کے تمام افراد (جس میں شوہر، بچے اور بزرگ لوگ شامل ہیں) کی ضروریات کو سمجھنا اور پورا کرنا ایک فن ہے۔ جسے سلیقہ مندی، خلوص اور لگن کے ذریعہ سیکھا جاسکتا ہے۔ گھر چلانے کا فن سیکھنا ہر خاتون اور ہر نوجوان لڑکی کی بنیادی ضرورت ہے۔ آئیے مذکورہ حدیث پاک کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ عملی باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
گھر کے افراد کے لیے کھانا بنانا، صفائی ستھرائی، گھر کے افراد کی چیزوں کو مناسب انداز میں ترتیب سے مناسب جگہ پر رکھنا، کھانے میں تمام لوگوں کی پسند وناپسند اور ضرورت کا خیال رکھنا، بچوں کا اسکول بیگ اور ٹفن تیار کرنا، گھر کے ضروری بلوں اور کاغذات کو سنبھالنا، بچوں کا ہوم ورک اور اسکول سے متعلق امور کو دیکھنا اور انجام دینا وہ باتیں ہیں جو ایک گھر دار خاتون سے توجہ بھی چاہتی ہیں اور محنت بھی۔ ان میں سے کسی ایک کام میں کوتاہی یا عدم دلچسپی گھر کے پرسکون ماحول کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہی کام اگر مرد کو کرنے پڑیں تو وہ ناکام ہوجائے گا لیکن ایک عورت ان تمام کاموں کو بیک وقت بہتر انداز میں انجام دیتی ہے اور دے سکتی ہے۔ بعض خواتین تو نوکری کرتے ہوئے یہ تمام کام انجام دیتی ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاتون خانہ کو یہ صلاحیت دی ہے اور اس کے مزاج اور طبیعت میں خانہ داری رکھی ہے ۔ جو خواتین اس سے فرار چاہتی ہیں تو گویا ان کی نسوانی فطرت میں نقص کی علامت ہے۔ ایک مسلم خاتون کی تمام توجہ کا مرکزاس کا گھر ہوتا ہے اس لیے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ گھر داری اور گھر چلانے کے فن کی اچھی تربیت حاصل کرے۔ کیوں کہ خوش باش گھر، اہل خانہ کے لیے سکون کا ذریعہ ہے اور یہ چیز نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوتا ہے، ہر شخص واقف ہے۔
سب سے پہلا کام
آپ نے لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ ’’گھر کو دیکھ کر گھر والی کو سمجھا جاسکتا ہے‘‘ بات بالکل درست ہے۔ جہاں صاف ستھرا اور سلیقہ مند گھر خاتون خانہ کی سلیقہ مندی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہیں بدنظمی اور بے ترتیبی بے سلیقگی اور ذہنی انتشار کا پتہ دیتے ہیں۔ گھر میں صوفے سے لے کر بستر تک کپڑوں کا پڑا رہنا، فرش پر رکھے برتن، گھر کے دروازے پر بکھرے جوتے چپل، کچن کے سلیب پر برتنوں کا ڈھیر، فرج یا ٹی وی کے اوپر ضروری کاغذات اور بلوں کا پڑے رہنا ایسی باتیں ہیں جو گھر کے نظم و انتظام میں کمزوری کا پتہ دیتی ہیں۔ اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر چیز کے لیے مناسب اور الگ جگہ بنائیں۔ میلے کپڑے ایک جگہ، دھلے کپڑے دوسری جگہ، کاغذات ایک فائل میں رکھے جائیں، برتن ہمیشہ کچن میں ہی ہوں اور ڈھیر لگنے سے پہلے ہی دھو دیے جائیں ۔ اس طرح کام پھیلنے سے بچا رہے گا۔ گھر کے مین دروازے کے قریب جوتے چپلوں کے لیے مناسب جگہ بنا کر وہاں رکھنے کا انتظام ہو اور گھر کے تمام افراد بہ شمول بچے، یہ ہدایت ہو کہ وہ گھر میں داخل ہوتے ہی جوتے چپل اتار کر اسی جگہ پر رکھیں۔ اکثر چیزیں بچے گھر میں پھیلاتے رہتے ہیں اس لیے بچوں کو ہدایت بھی ہو اور نگرانی بھی رکھی جائے کہ وہ کھیلنے کے بعد سارے کھلونے ایک جگہ کر کے ان کے مقام پر رکھیں۔ ہوم ورک اور پڑھائی کے بعد کتابیں کاپیاں وغیرہ سمیٹ کر متعینہ جگہ پر ہی رکھیں۔ اور بچوں کو شروع ہی سے اس بات کی تربیت دیں وہ اپنی چیزیں خود سنبھال کر رکھیں۔ اس طرح ان کو ڈسپلن اور نظم کی تربیت بھی ملے گی اور خاتون خانہ سے کاموں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔
فہرست اور ٹائم ٹیبل
عام طور پر خاتون خانہ کاموں کے لیے ٹائم ٹیبل کا اہتمام نہیں کرتیں اور سارا دن گھر کے ہی کاموں میں لگی رہ جاتی ہیں۔ یہ درست نہیں۔ کوئی ضرورت نہیں کہ ٹائم ٹیبل ایسا باریک بیں ہو کہ منٹوں کے حساب سے بنا ہو۔ اتنا کافی ہے کہ فرصت کے اوقات کو منظم کیا جاسکے اور کاموں کی ترتیب متعین ہو جائے۔ مثلاً مردوں اور بچوں کے اسکول اور کام پر چلے جانے کے بعد ایک گھنٹہ صفائی اور کپڑے دھونے میں لگانے کے بعد دو تین گھنٹے پڑھائی یا کسی دوسری سرگرمی میں صرف ہوں گے۔دوپہر میں دو بجے سے تین بجے تک آرام کر لیا جائے گا۔ اور عصر کی نماز کے بعد بازار سے سبزیاں یا دیگر گھریلو ضروری اشیاء خرید کر لائیں گی۔ وغیرہ
اسی طرح گھر کے سامان اور روز مرہ کے خاص کاموں کی فہرست تیار کی جائے تاکہ کوئی اہم کام یاد نہ رہنے کی وجہ سے انجام دینے سے نہ رہ جائے۔ یہ فہرست سازی رات کو سونے سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے اور صبح سویرے اٹھ کر بھی۔ اسی طرح جو ضرورت کی چیزیں ختم ہوجائیں انہیں خریداری کی فہرست میں اسی وقت نوٹ کرلیں۔ اور یہ فہرست خریداری کے لیے یا تو گھر کے ذمہ دار کو دے دی جائے تاکہ وہ شام کو لوٹتے وقت خرید لائے یا خود (اگر خریداری کرتی ہوں) خرید لائیں تاکہ عین موقع پر دشواری نہ ہو۔
دراصل اکثر اوقات تھوڑی سی کاہلی اور سستی کاموں کو مشکل اور پے چیدہ بنا دیتی ہے اس لیے اس سے گریز کرتے ہوئے ہر کام کو بروقت کرنے کا ذہن تیار کریں اور جو کام جس وقت انجام دینے کا تقاضہ کرتا ہو اسے اسی وقت کر ڈالیں، آج کا کام کل پر نہ اٹھا رکھیں۔
گھر خاندان پہلی ترجیح
لازمی ہے کہ خاتون خانہ کی پہلی ترجیح گھر اور اس کے افراد ہوں۔ ان کی ضروریات کی تکمیل اور ان کی دیکھ بھال ہر چیز سے زیادہ اہم ہو۔ مثلاً اگر بچے کا امتحان ہے تو رشتہ داروں کی تقریبات قابل ترجیح نہ ہوں۔ گھر کے کسی فرد کی طبیعت خراب ہو تو سہیلیوں کے ساتھ باہر جانا یا اجتماعات وغیرہ میں شرکت بھی ان کی دیکھ بھال سے زیادہ اہم نہیں ہوسکتی۔ ایک مسلم خاتون کے شایان شان نہیں کہ وہ اپنے بچوں، شوہر یا اس کے والدین کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر اسٹیج پر تقریر کرتی پھرے یا دینی اجتماعات میں شریک ہو۔ سوائے اس کے کہ ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی متبادل موجود ہو ۔ کچھ وقت خاص کیجیے۔ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ خاتون خانہ گھر کے کاموں میں کچھ اس طرح مصروف رہتی ہے کہ اس کا پورا وقت گھر داری ہی میں نکل جاتا ہے اور ہنسنے بولنے، گھومنے پھرنے یا خود پر توجہ دینے کا بھی وقت نہیں مل پاتا۔ ایسا درست نہیں۔ لازم ہے کہ خاتون خانہ کچھ وقت اس طرح صرف کر ے کہ وہ خود پر بھی توجہ دے سکے۔ سجنا، سنورنا، صحت و حسن کی دیکھ بھال و جسمانی ورزش وغیرہ وہ کام ہیں جو آپ سے کچھ خاص وقت کے طلب گار ہیں۔ اگر خاتون خانہ اس طرح کے کام کے لیے خاص وقت نکالنے میں ناکام رہتی ہے تو زندگی کے ڈھرے سے جلد اکتا جائے گی۔ اس لیے روٹین کے کاموں میں کچھ بدلاؤ بھی ضروری ہے۔ اس لیے بچوں کے ساتھ بیٹھنے، بزرگوں سے باتیںکرنے، گھومنے پھرنے، رشتہ داروں اور قرابت داروں کے ساتھ بیٹھنے اور ملنے جلنے کے لیے بھی وقت نکالنا ضروری ہے۔
اس طرح بچوں کے ساتھ روزانہ گفتگو اور بات چیت کے لیے بھی لازما وقت نکالا جائے۔ اس دوران ہنسنے ہنسانے اسکول کی رپورٹ لینے اور قصے کہانیاں اور واقعات سننے سنانے کا اہتمام ہو۔ اس وقت میں بچوں سے تربیتی امور پر بھی باتیںہوسکتی ہیں تاکہ ان کی فکری و دینی تربیت ہوسکے۔
آخری بات
گھر اہل خانہ اور خاتون خانہ کے لیے وجہ سکون و اطمینان ہونا چاہئے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب گھر کے جملہ افراد اپنے فرائض واجبات سے اچھی طرح واقف ہوں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب گھر میں دینی ماحول بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔ چناں چہ لازم ہے کہ گھر میں دینی لٹریچر پڑھنے پڑھانے اور قرآن و حدیث کی باتیں سننے سنانے کا باقاعدہ انتظام ہو۔
ہم اپنے گھر والوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کامیاب انسان بنیں ٹھیک اسی طرح ہماری خواہش ہی نہیں بلکہ پوری کوشش یہ بھی ہونی چاہیے کہ ہمارے بچے اور ہمارے گھر کے افراد اس دنیا کے بعد کی دنیا میں بھی کامیاب ہوں۔ اس لیے ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی غفلت نہیں برتنی ہے اور وہ تمام کام انجام دینے ہیں جن کے ذریعے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی بنائی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ lll