سیاست دان کی تحریک آزادیِ نسواں کے دو سال کے بعد رنگ لائی جب ملک کی مجلس مقننہ کے حزب مخالف نے بھی اس کے دعویــ کو تسلیم کرلیا، ایوان میں اس نے اپنی مشہور تقریر ان فقروں پر ختم کی۔ قوم کی آزادی اورترقی عورت کی آزادی اور ترقی میں مضمر ہے۔ عورت کو آزاد کردو۔ قوم بجلی کی سی سرعت سے ترقی و عروج کی رفعتوں پر پہنچ جائے گی۔ ’’ایوان تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ اور رؤسائے ملک نے اس کی حمایت میں اپنے ہاتھ بلند کردیے۔
مجلس کے اختتام پر سیاست داں فرحاں و شاداں اپنی ’’محبوبہ‘‘ کے پاس آیا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا اور چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اس نے اس کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا ’’بیگم میں نے تمہارے لیے وہ کام کیا ہے جو آج تک کوئی سیاست داں، رہ نما یا مجدد نہ کرسکا۔ تمہارے ایماء پر صرف تمہاری خوش نودی کے لیے میں نے تمہاری جنس کو قعر مذلت سے عروج کمال تک لا پہنچایا ہے کیا اب بھی تم خوش نہیں؟ کیا اب بھی تم روٹھے منہ سے ایک بار ہاں نہ کہوگی؟ مجھے حکم دو تو میں حکومت کا تختہ الٹ دوں، رؤسائے ملک تمہارے در پر دست بستہ تمہارے حکم کے انتظار میں کھڑے ہوں۔ کیوں میرے پھول، کیا اب بھی میں نظر التفات کا حقدار نہیں؟‘‘
وہ مسکرائی اور اس کے دانتوں کی چمک سے سیاست داں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں ’’کیوں نہیں اب امتحان کی کٹھن گھڑیاں گزر گئی ہیں۔ اب ہم ہمیشہ اکٹھے زندگی بسر کریں گے۔‘‘
سیاست داں کی کوششیں بار آور ہوئیں اور چند ہی دنوں میں آزادی نسواں کا چرچا زبان زد عام ہوگیا۔ اس فیروز مندی پر، اس پر تحسین و آفریں کے پھول برسنے لگے۔ بیدار مغز اور روشن خیال لوگوں نے اپنی عورتوں کو رضا کارانہ آزادی دے دی۔ انہوں نے دھکے دے دے کر دقیانوسی خیالات کی عورتوں کو گھروں کی اندھیری چار دیواری سے باہر نکالا۔ تحریک چلتی چلتی چل پڑی اور وبا کی طرح ملک میں پھیل گئی۔ شہروں گاؤں اور محلوں میں ایسی متعدد جماعتیں قائم ہوگئیں جن کا مقصد واحد مردہ عورت کو زندہ کرنا تھا اور قلیل ہی عرصہ میں ملک کے تاریک کونوں اور شہر کی اندھیری گلیوں سے مدفون حسن برآمد ہونے لگا۔ لوگوں کی حسن ناشناس آنکھیں یہ مناظر دیکھ کر چندھیا گئیں۔ مقراض نظر نقادوں نے اس کو پرکھا۔ جرائد و رسائل نے نئے انکشافات سے ملک بھر میں ہلچل مچادی۔ لوگ حسن کو دیکھ کر جھوم رہے تھے اور وارفتہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ مفسرین میں حسن کی مانگ ہوتی اور یک بیک نئے نئے شاعر، مصور اور سنگتراش پیدا ہوگئے۔ پرانے کھوسٹ راگیوں نے اپنے سر تال درست کیے اور سازندوں نے اپنے ستاروں کے زنگ آلود تاروں کو نئے تاروں سے بدل دیا۔ شاعر نے الفاظ میں ایسا جادو بھر دیا کہ شعر پڑھتے ہی تخیل ستاروں کی دنیا میں پہنچ جائے۔ مصور نے تصویر میں نور بھر دیا اور سنگتراش نے آسمانی روح کو مرمریں پیراہن پہنا دیا۔ ملک دنیا بھر میں حسن و جمال کے لحاظ سے دوسرے ملکوں سے گویا سبقت لے گیا اور یہ سب کام تنہا سیاست داں کے زور بازو کا نتیجہ تھا۔
وہ دونوں ایک خوب صورت محل میں رہنے لگے جو ملک نے سیاست داں کی خدمات کے صلے میں بطور انعام اور شکریہ کے پیش کیا تھا سیاست داں کی زندگی سونے کی طرح دمکنے لگی۔ حسرت و یاس کے بادل چھٹ گئے۔ وہ مسرور تھا کہ اس نے اپنا گوہر مقصود پالیا دھوپ پہلے سے زیادہ سنہری اور چاندنی چٹکیلی ہوگئی۔ سارا دن وہ مسرت سے کھیلتے، ہنستے اور کھلکھلاتے، بازو میں بازو ڈالے انہوںنے ملک کی ایک ایک گلگشت، چمن اور سبزہ زار پھولوں کی تلاش میں چھان مارے۔ چاندنی راتوںمیں کشتی پر بیٹھے سیاست پر شیریں مباحث چھیڑتے ہوئے انہوںنے دریا کی ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیر کرلی۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کی محبوبہ کی دلچسپی ان سیروں میں کم ہونے لگی۔ سیر کے وقت وہ سیاسی بحث پسند نہ کرتی۔ اور ایک دن جب سیاست داں سیر کے لیے تیار ہوا تو اس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
سیاست داں نے مضطرب ہوکر پوچھا: ’’میری جان! کس چیز نے تمہیں تکلیف دی اگر کہو تو میں تمام دنیا کی قوتیں تمہارے قدموں میں لا ڈالوں۔ میری تیتری ایک بار حکم دو اور دیکھو میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
’’بھئی، چند روز سے یہ ساری سیریں اور بحثیں میرے دل پر گراں گزرنے لگی ہیں۔ بار بار وہی چیز، میں اس تکرار سے اکتا گئی ہوں، میں کچھ تغیر چاہتی ہوں۔‘‘
’’تو ہم اسے ترک کردیں گے، میں اس پھول کی پتی جیسے نازک دل پر شبنم کا بوجھ بھی گوارا نہیں کروں گا۔ کہو تو میں ملک کے بہترین شاعروں کی مجلس بلا لوں۔‘‘
عورت نے مسکرا کر اثبات میں اپنا سر ہلایا۔
چند ہی دنوں میں ملک کا بہترین شاعر اپنے شاگردوں سمیت ان کے محل میں داخل ہوا۔ سیاست داں نے ان کا استقبال بڑے تپاک سے کیا۔ ’’مگر وہ آپ کے پیچھے کون صاحب ہیں۔‘‘ اس نے ایک گنجے سر والے کی طرف اشارہ کیا جو شاعروں کی ٹولی کے پیچھے گنگناتا آرہا تھا۔
عورت بے ساختہ بول اٹھی ’’بہت خوب! شاید یہ موسیقار ہے۔‘‘
شاعر نے کہا: ’’شعر نغمے کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا، کہاوت ہے کہ موسیقی شاعری کی چھوٹی بہن ہے۔ گائی گئی تو چیز ہی کچھ اور ہوگئی۔‘‘
اب عورت کے رخساروں پر سرخی عود کر آئی۔ چاندنی راتوں، درختوں کی اوٹ میں وہ اپنی محفلیں جماتے، جہاں پر چاند کی سیمیں کرنیں پتوں میں سے گھستی کھسکتی ان کے چہروں اور آنکھوں پر کھیلتیں۔ اور وہ سبزے پر دراز اشعار اور موسیقی کی دنیا میں جل پری کی طرح تیرتی ہوئی جاپہنچی۔ پھر کبھی ایسا ہوتا کہ وہ الفاظ کی سیڑھی پر چڑھتی ہوئی ستاروں کی بستی میںپہنچ جاتی جہاں حسن کی ندی بہتی ہے اور عشق پانی میں اپنے ہی چہرے کے عکس پر ریجھا بیٹھا آہیں بھر رہا ہوتا ہے۔ اس کے اوپر نغموں کی پھوہار پڑ رہی تھی۔ اس طرح اس کے دن الفاظ اور خیال کے عالم میں گزر رہے تھے۔ سیاست داں خوش تھا کیوں کہ اس کی محبوبہ خوش تھی۔
مگر ایک دن سیاست داں کا دل پھر دھک سے رہ گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ کے رخساروں کی سرخی کافورہوتی جا رہی ہے۔ اس نے دیکھا کہ جب شاعر اپنی اپنی بیاض نکالتے تو وہ دوسری طرف تکنے لگتی۔
ایک صبح سیاست داں نے اس کا چہرہ بالکل سپید دیکھ کر پوچھا: ’’آج گلاب نے اپنا رنگ کیوں بدل لیا ہے؟‘‘
’’تم بھی شاعری کرنے لگے۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا: ’’میں تھکاوٹ اور پستی محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
’’مگر شاعر اور موسیقار کہتے ہیں کہ ان کا فن روح کو بلند کرتا ہے۔‘‘
’’ہاں وہ کہتے ہیں لیکن جلد ہی وہ حسن کو چھوڑ کر اپنے آپ میں کھو جاتے ہیں، وہ خود غرض ہیں۔‘‘
سیاست داں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور انوکھی تنقید سن رہا تھا۔
’’شاعر کے الفاظ محض کالی روشنائی نظر آتے ہیں اور موسیقی محض نپی تلی متواتر کھٹ کھٹ۔ میرے تو کان پھٹ گئے ہیں شعر و نغمہ سنتے سنتے۔ میں تبدیلیِ محفل چاہتی ہوں، کیوںپیارے تم مجھ سے اتفاق رکھتے ہو؟‘‘
’’کیوںنہیں، تو اب کے مصوروں کو بلاؤں، وہ کہتے ہیں ہمارے پاس رنگ و روشنی کی دنیا ہے اور ہم نظر کے توسل سے روح پر مرہم لگاتے ہیں۔‘‘
دوسرے دن ملک کا بہترین مصور ہاتھوں میں رنگ کاڈبہ اور موقلم تھامے اپنے جلو میں طلبائے فن کا ایک جم غفیر لیے آموجود ہوا۔ انہوں نے باغ کے ایک تنہا گوشے کو اپنا مسکن بنالیا۔ مصور عجیب قسم کا آدمی تھا، ہر وقت عورتوں اور پھولوں کو خاموش ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہتا۔ ایسی ٹکٹکی کہ یہی معلوم ہوکہ ابھی اس کو اپنی آنکھوں سے نگل لے گا۔ مصور نے عورت کو دن کے سفیدے اور رات کے دھندلکے میں حسن کی لازوال کیفیات دکھائیں۔ وہ خواب کی دنیا کے تصورات کو کاغذ پر لکہ ابر کی طرح جکڑ دیتا۔ اضطراب اور یاس کو رنگ کی دنیا میں اور بھی رنگین کر دیتا۔
اس نے کہا ’’میں نظر کو قید کرسکتا ہوں۔‘‘ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں اس نے عورت کی تصویر بنانی شروع کی۔ اس کے شاگرد قطار باندھ کر بیٹھ گئے اور سب نے اس کی طرف سانپ کی طرح ٹکٹکی لگادی۔ ہر بار وہ تصویر بنانے بیٹھتا تو کہتا۔ ’’اب کے میں ایک لازوال شاہکار پیش کروں گا۔‘‘ اور ہر بار وہ متعجب ہوکر سوچتی کہ وہ شاہکار کب معرض وجود میں آئے گا۔
وہ ان سے بھی تنگ آگئی۔
ایک شام وہ سیاست داں کو اطلاع دیے بغیر اکیلی ہی سیر کو چل دی اور رات گئے واپس آئی۔ سیاست داں فکر میں دروازے پر کھڑا تھا۔ جب وہ آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اس کا دل دھک سے رہ گیا اندر آتے ہی وہ کرسی پر گر گئی۔ اور اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ ’’میرے دل میں اضطراب اور بے کلی طوفانی سمندر کی موجوں کی طرح اٹھ رہی ہے۔‘‘
’’کیا مصوری کا دعویـ بھی بالکل باطل نکلا؟‘‘
’’بالکل‘‘ تصویر محض رنگ کے دھبے ہیں۔ وہ پہلے پہل ہی ایسا نظر آتے ہیں۔ بعد میں وہ بھی آنکھوں کے رنگوں میں گھل مل جاتے ہیں مصور نے میرے جسم کو اپنی نوکیلی نگاہوں سے چھلنی کر دیا ہے۔ چوہا!‘‘
’’اگر کہو تو سنگتراش بلا لیا جائے۔ وہ موسیقی کو پتھر میں منجمد کرنے کا دعویــ رکھتا ہے۔‘‘
تھوڑے ہی دنوں کے بعد باغ میں چاروں طرف اور محل کی طویل غلام گردشوں میں مکمل اور نامکمل ثابت اور ٹوٹے ہوئے اعضاء والے مجسمے کھڑے تھے۔ وہ اپنی پتھریلی نگاہوں سے ہرگزرنے والے کو گھورتے۔ اور سنگتراش اپنے تیشوں اور چینیوں سے ان میں جان ڈال رہے تھے۔ ملک کا سب سے بڑا سنگ تراش ایک موٹا آدمی تھا۔ وہ اس کو ہر مجسمے کے پاس لے جاتا اور اس کی آرائش و جمال کا فلسفہ سمجھاتا۔ اس نے کہا ’’سنگتراشی حسن کو ٹھوس صورت میں ظاہر کرتی ہے وہ سماوی حسن کے تناسب اعضا اور اس کے ڈھانچے کو مرمر میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے ’’ان میں بہترین مجسمہ وہ تھا، جس نے نسوانی حسن کو بے حجاب کر دکھایا تھا۔اس نے اس مجسمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ میری زندگی کا حاصل ہے شاہ ایران اسے اپنے خزانے کے بہترین ہیرے سے خریدنا چاہتا تھا۔‘‘
ایک صبح وہ اپنے کمرے سے باہر نہ نکلی سیاست داں حالت تشویش میں اس کے کمرے کی طرف گیا۔ مگر اسے اندر سے مقفل پایا۔ اس نے دستک دی مگر جواب ندارد۔
’’بیگم دروازہ کھولو۔‘‘
’’آج میں باہر نہیں آؤں گی۔‘‘
’’میری نرگس، ایک بار اپنی صورت تو دکھادو۔‘‘
جب اس نے دروازہ کھولا تو اس کی حالت عجب ہو رہی تھی۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اور رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔
سیاست داں کی زبان لڑکھڑائی۔ ’’کیا اب کے حسن مرمریں بھی تجھے سکون نہ بخش سکا۔‘‘
جواب دینے کے بجائے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہ سب عبث ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے گویا میرا دل خلا میں ڈوبا جا رہا ہے۔ بے قراری ، اضطراب، درد اور کرب میرے دل میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے وحشی ناچ ناچ رہے ہیں۔‘‘
اف ۔۔۔ سیاست داں گم سم بیٹھا تھا۔ ’’تم خود ہی کہو اب میں تمہارے لیے کیا کروں؟
وہ چپ رہی۔
’’اب تو میں ہی باقی رہ گیا ہوں۔‘‘
’’ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ہویدا ہوئی۔ گویا وہ اس کی حماقت پر ہنس رہی تھی۔
دوسرے دن جب وہ اسے جگانے گیا تو بستر میں اس کی بجائے ایک پیلا لفافہ پڑا پایا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لفافہ چاک کیا کاغذ کے عین وسط میں ایک فقرہ لکھا ہوا تھا، اب تم بھی میرے لیے نئے نہیں رہے!‘‘
وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا حتی کی بھوک اس کے پیٹ میں کلبلانے لگی۔ جب اس نے اپنے ملازم خاص کو آواز دی تو وہ غائب تھا۔
دوسری ملکی مجلس میں سیاست داں نے ایک زبردست تقریر کی جس کے آخری الفاظ یہ تھے۔
’’عورت کو خالق کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رکھو اور تم اپنے کو بھی کیوں کہ خواہشات ہر آن نئی تخلیق چاہتی ہیں اور نئی تخلیق تم نہیں کرسکتے۔‘‘lll