حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مومن سراپا محبت والفت ہوتا ہے۔ اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ کسی سے الفت رکھتا ہے اور نہ کوئی اس سے مانوس ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
تشریح:یہ مختصر سا فرمان جو رحمۃ اللعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو عطا فرمایا ہے اس پاکیزہ اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے کہ جو لوگوں کے سروں پر قوت اور جبر سے مسلط نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے سوتے دلوں کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ چہروں کی مسکراہٹوں سے جھلکتے ہیں، آنکھوں کی شفقت میں کروٹیں لیتے ہیں، ہونٹوں سے پھول بن کر جھڑتے ہیں اور نگر نگر ہی نہیں بلکہ گھرگھر پھیل کر دلوں کو مسخر کرلیتے ہیں۔
نسلی تعصب، فرقہ بندی اور طبقاتی کشمکش کی تاریکیوں میں بھٹکی ہوئی انسانیت کو جب اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں آفتابِ انسانیت عطا فرمایا تو کائنات کا گوشہ گوشہ اور زندگی کا شعبہ شعبہ محبت ورحمت کے انوار سے جگمگا اٹھا۔ اور پھر دنیا نے پہلی بار بے غرض اور بلا تخصیص محبت کا یہ پیغام سناکہ’’مومن سراپا محبت والفت ہے۔‘‘
بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ دنیا پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کی تعلیمات اور پیغام کے نتیجے میں اخوت باہمی اور محبت وشفقت کے جذبے سے آشنا ہوئی۔ اور یہی محبت کی ہمہ گیری حدیثِ پاک کے اس مختصر سے جملے میں سمٹ آئی ہے۔
حدیثِ پاک کا یہ فرمان کہ مومن سراپا محبت والفت ہے۔ خود اہل ایمان کی تعریف اور حیثیت بھی متعین کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ محبت والفتِ باہمی کی اہمیت وفضیلت کی حد بندی بھی کرتا ہے۔
یعنی مومن ایک ایسا باشعور فرد ہے کہ جس نے اس بات کو پوری طرح پہچان لیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ اور اس کی پیدائش سے لے کر زندگی کے سارے مرحلے اللہ تعالیٰ کی صفتِ محبت کا مظہر ہیں۔ اور وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے میں بسر کرتا ہے۔ اس کا ہر سانس اللہ تعالیٰ کی بے پایاں محبت کے سہارے قائم ہے۔ اس کی زندگی کے سارے ذرائع اور تمام وسائل اسے محض اس لیے مل رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظرِ عنایت اس پر ہے۔ پھر یہی بات آگے بڑھتی ہے تو احساس اور وجدان کا نقشہ ایک اور منظر لے کر سامنے آتا ہے کہ وہ اللہ صرف اسی کا نہیں بلکہ سب کا ہے۔ اور اس کی یہ محبت ساری مخلوق کے لیے ہے۔ ہر بندہ اسی اللہ کا بندہ ہے اور سب پر اس کی شفقت کا سایہ ہے۔ وہی سب کا وسیلہ اور سب کا آسرا ہے اور اسے اپنی مخلوق میں وہ لوگ سب سے زیادہ پسند ہیں جو اس کے بندوں کے ساتھ محبت کرنے والے اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے والے ہیں۔
اپنے مالک کو راضی کرنا سب سے بڑا کام ہے اور اس مالکِ حقیقی کی رضا صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ بے غرضانہ محبت کرنے والے ہوں۔
پھر جب بات کچھ اور آگے بڑھتی ہے تو یہ سوال خود بخود سامنے آجاتا ہے کہ محبت آخر ہے کیا؟ کیا یہ صرف زبان سے اظہار کرنے کا نام ہے یا اس کے کچھ تقاضے اور کچھ حدود بھی ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ محبت محض ایک لفظِ بے معنی ہے اگر یہ صرف زبان محبوب کو چاہت کا یقین دلانے سے آگے نہ بڑھے۔ اور جب محبت کی وضاحت اور اس کی حقیقت پر غور کیا جائے تو پھر معنی کا ایک دفتر سامنے آجاتا ہے جس کے ہزار جلوے اور ہزار رنگ ہیں۔ اور پھر محبت نام ہے دوسروں کو ترجیح دینے کا، اور بھلائی عام کرنے، ضرورت میں کام آنے، حاضر وغائب ہر صورت میں ایک دوسرے کا وفادار رہنے، نرمی سے گفتگو کرنے، خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے اور آپس میں ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے ہی کو تو محبت کہتے ہیں۔
یہ سارے کے سارے محبت ہی کے تو تقاضے ہیں اور ’مومن‘ اپنے معاشرے میں اپنی ان ساری ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے کو کہتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ مومن کا مقام صرف یہی نہیں ہے کہ وہ ایک فرد ہے بلکہ وہ تو ساری دنیا کے سامنے حق کا گواہ بھی ہے اور اس کی گواہی اس دنیا میں صداقت کی بالادستی اور محبت کی فراوانی کی دلیل ہے۔ وہ اس دنیا میں اخلاقِ محمدیؐ کے امین اور سیرتِ محمدیؐ کے نقیب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے اپنے دائرہ کار میں محبت کے اس پیغام کو عام کرنا ہے جسے لیکر نبیؐ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور محبت اور باہمی اخوت کے جس نظام کو قائم کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مقدس زندگی کا ایک ایک لمحہ یہاں صرف فرمایا۔ لہٰذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اتباع کا پابند ہونے کے اعتبار سے ہر مومن ایک ہمہ وقتی مبلغ ہے جس کا سارا وجود ہی ایک چلتا پھرتا اعلانِ حق ہے۔ اور کوئی تبلیغ اور وعظ اس وقت تک اثر پذیر نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ اس کی پشت پر عمل کا نور اور محبت واخلاق کا رنگ نہ ہو۔ محض زبان سے کہے ہوئے الفاظ جو عمل کی روح سے خالی ہوں۔ فلسفہ اور شاعری تو ہوسکتے ہیں مگر کوئی تبلیغ یا تحریک نہیں ہوسکتے۔
ایسی بات کی وضاحت اس حدیث مبارک کے آخری الفاظ کررہے ہیں کہ اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ کسی سے الفت رکھتا ہے اور نہ کوئی اس سے مانوس ہے۔ گویا ایسا آدمی جس کی زندگی مہرومحبت سے خالی ہے وہ حقیقت میں خیر اور بھلائی سے خالی ہے بے مہری کی یہ صورت تو ظاہر ہے کہ صرف اسی وقت پیش آسکتی ہے جب کہ آدمی نے زندگی کا جو نقشہ اپنے لیے بنایا ہو اس کی بنیاد خالصتاً خود غرضی اور مطلب پرستی پر رکھی گئی ہو۔ اور یہ طرزِ عمل اسی شخص کا ہوسکتا ہے جو اپنی ذات کے خول میں بند ہوگیا ہو یا جس نے رہبانیت اور ترکِ دنیا کا راستہ اختیار کرلیا ہو۔
ورنہ یہ ممکن نہیں کہ معاشرے میں رہنے والا کوئی شخص ایسا بھی ہوسکے کہ نہ کوئی اس سے انس رکھتا ہو اور نہ وہ کسی سے مانوس ہو۔ نہ وہ کسی کے کام آئے اور نہ کوئی اس کے کام آئے۔ نہ وہ کسی کے لیے جیئے اور نہ کوئی اس کے لیے جیئے۔ یہ خدوخال مومن کی تصویر کے نہیں ہوسکتے کیوں کہ مومن تو خیر ہے اور محبت ہی محبت ہے۔ وہ تو پھولوں کی ایسی مہک ہے کہ جو نفس نفس تک پہنچتی ہے اور ہر دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ اہل ایمان تو حقیقت میں آفتاب کی روشنی اور حرارت کی طرح سب کو فیض یاب کرنے کے لیے اس دنیا میں پیدا کیے گئے ہیں۔ اور ایمان کا نور سب تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے وہ تو سراپا محبت ہیں اور ان کی محبت سب کے لیے ہے۔ یوں سمجھئے کہ ایمان دل کی ایک نظر نہ آنے والی کیفیت کا نام ہے اور آپس کی محبت اس کے اظہار کا ایک رنگ ہے لہٰذا سب سے محبت کیجیے تاکہ ایمان کی تکمیل ہو اور یہ محبت کا رنگ خوب نکھرے اور خوب ہی بکھرے۔lll