حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جب میری امت میں گناہوں کی کثرت ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ خواص و عوام سب پر اپنا عذاب اتارے گا۔‘‘ ( احمد)
اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں یہ سن کر میں نے رسول اکرمؐ سے پوچھا، یا رسول اللہ ؐ کیا اس وقت صالح اور نیک بندے نہیں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہوں گے۔ میں نے کہا پھر ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا جو مصیبت اور لوگوں پر آئے گی، وہی ان پر بھی آئے گی، پھر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کو مغفرت اور رضامندی ملے گی۔‘‘
علامہ ابن قیم جوزیؒ ’’الجواب الکافی لمن سأل عن دواء الشافی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میری امت ہمیشہ اللہ کی تائید اور اس کے رحمت کے سایے میں رہے گی، جب تک کہ اس امت کے علماء، امراء کی بے جا حمایت نہیں کریں گے، نیک لوگ، فاسقوں، فاجروں کی بے جا صفائی پیش نہیں کریں گے اور شریر لوگ نیک لوگوں کی توہین اور بے عزتی نہیں کریں گے۔ لیکن جب لوگ یہ کام کرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی تائید ان سے اٹھالے گا اور جابر و ظالم لوگوں کو ان پر مسلط کر دے گا جو ان پر بدترین عذاب کے پہاڑ توڑیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو فقر و فاقہ میں مبتلا کردے گا۔‘‘
مسند ہی میں حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’آدمی اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ڈر ہے کہ دنیا کی قومیں ہر طرف سے تم پر ٹوٹ پڑیں گی، جس طرح بھوکے کھانے کے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا، کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی، لیکن تمہاری حالت اس وقت سیلاب کے خس وخاشاک کی طرح ہوگی، تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب اٹھ جائے گا اور تمہارے دلوں میں بزدلی پیدا ہوجائے گی۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ بزدلی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا زندگی سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘
جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
’’آخری زمانے میں ایسے لوگ نکل کھڑے ہوں گے، جو دین کو فریب کا ذریعہ بنا کر دنیا کمائیں گے، لوگوں کو دکھانے کی خاطر بکریوں کی نرم کھال اوڑھ لیں گے، ان کی زبانیں شکر سے بھی زیادہ شیریں ہوں گی، لیکن ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کہے گا کیا تم میرے نام پر اکڑ رہے ہو، کیا تم نے میرے خلاف جرأت کی، میں اپنی ذات کی قسم کھاکر کہتا ہوں ان لوگوں کو ایسے فتنہ اور عذاب میں ڈالوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں دس افراد کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔ انمیں سے ایک میں بھی تھا، رسول اللہؐ نے خطاب فرمایا:
’’اے مہاجرین کے گروہ! میں پانچ چیزوں سے تمہارے حق میں بارگاہِ الٰہی سے پناہ مانگتا ہوں۔ جس قوم میں بے حیائی پھیل جائے اور کھلم کھلا بدکاری ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ ان میں طاعون اور دوسری قسم کی بیماریاں بھیج دیتا ہے جو ان سے پہلے لوگوں میں نہیں تھیں۔ جو لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان میں قحط سالی اور تنگی معاش کی مصیبت بھیج دیتا ہے اور ظالم بادشاہ ان پر مسلط کر دیتا ہے جو لوگ مال کی زکوٰۃ دینا بند کردیتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان سے بارش روک دیتا ہے اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان لوگوں کے لیے کبھی پانی نہ برستا۔ جو لوگ عہد توڑتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر اللہ کے علاوہ کسی کو دشمن بنا کر مسلط کر دیتا ہے جو ان کے قبضے سے چیزوں کو چھین لیتا ہے۔ جب ان مسلمانوں کے راہ نما اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین اور اس کی کتاب پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے درمیان پھوٹ ڈال دیتا ہے۔
آج ہر طرف مصائب و مشکلات کے پہاڑ دیکھتے ہوئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ گناہوں سے باز آجائے اور سابقہ گناہوں کی معافی صرف آدم علیہ السلام کی دعا کے ذریعے مانگتا رہے: ’’اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور تو ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم یقینا خسارے میں رہیں گے۔‘