شاہ جی کے گھر میں گھستے ہی احساس ہوتا کہ ڈیوڑھی میں بچھی ہوئی بوسیدہ چارپائی پردہ شخص بیٹھا ہے جس کے مرنے کی سبھی دعائیں مانگتے مانگتے اب تھک چکے ہیں، کبھی اس گھر مین شاہ جی غراتے پھرتے تھے جیسے شیر ببر جنگل میں گرجا کرتا ہے لیکن وہ اتنے برس پہلے کی بات تھی کہ اب کود شاہ جی کو یقین نہ آتا تھا کہ کبھی ایسے ہوتا تھا۔ ٹوٹی ہوئی مونج کی کھری چارپائی پر ڈھیلی ادوائن کی طرف پیر کیے وہ سارا دن مراقبے میں پڑے رہتے اور بار بار کی ٹھنڈی چلم چھوڑ کر کہتے… ’’اللہ جنت نصیب کرے اس بہ شتن کو کبھی پل بھر کو چلم ٹھنڈی نہ ہونے حقے دیتی تھی…‘‘ پھر کبھی کبھی وہ ہمت کر کے اٹھتے دروازے کی اوٹ میں بیٹھ کر آگ جلاتے اور بڑی نفاست سے چلم پر پھول چن کر چار پائی پر آبیٹھتے، لیکن اب تو ان کے لیے یہ کام بھی مشکل ہوگیا تھا۔ وہ حسرت سے کبھی ٹھنڈی چلم اور کبھی اس کونے کی طرف دیکھ کر رہ جاتے جہاں آگ جلنے کی وجہ سے کالا نشان پڑ چکا تھا۔
جب بھلے دن تھے اور شاہنی جی زندہ تھی تو شاہ جی کا معمول تھا کہ صبح گجر دم اٹھ کر گلی کا آہنی پھاٹک کھولتے ہینڈ پمپ چلا کر سلور کا لوٹا بھرتے اور اونچے اونچے درود پڑھتے ہوئے وضو کرنے لگتے۔ نماز پڑھنے سے پہلے وہ گھر کے تمام افراد کو نام لے لے کر جگاتے اور صوم و صلوٰۃ کی برکات پر لیکچر دیتے۔ ان دنوں کسی کی مجال نہ تھی کہ چارپائی پر لمبی تانے سویا رہتا۔ بڑی بہو تو نلکے کا شور سنتے ہی اٹھ بیٹھتی پھر سعیدہ، صابرہ اور زبیدہ دو پٹے سنبھالتی سلیپر ڈھونڈتی اندر چلی جاتیں، باقی بچے بھی ریں ریں رونا شروع کر دیتے اور شاہ جی کا بڑا لڑکا دوچار کروٹیں لے کر بیدار ہو جاتا، لیکن ادھر شاہنی نے آنکھیں بند کیں اور ادھر شاہ جی کا اقتدار کم ہوتا گیا۔ وہ جگاتے جگاتے تھک جاتے لیکن بری بہو اور اس کے آٹھ بچے دالان میں بچھی ہوئی چارپائی پر مردوں سے شرط باندھے مزے سے سویا کرتے۔ رفتہ رفتہ شاہ جی نے خود ہی صبح خیزی کی تلقین چھوڑ دی اور چپ چاپ وضو کرنے کا وطیرہ اختیار کرلیا۔ جب شاہ جی کی زبان بند ہوئی تو بڑی بہو کی کترنی چل نکلی۔کہاں تو دوہرہ بکل مار کر کسی بچے کے ذریعے سسر سے بات کیا کرتی تھی اور کہاں اس نے کھلے منہ شاہ جی کے سامنے آکر گرج کے کہہ دیا کہ رات ہی کو بدھنی بھر کر سرہانے رکھ لیا کریں، بچے صبح بے آرام ہوتے ہیں۔ صحن کی زندگی سے جو گھڑی کا سا تعلق باقی تھا وہ بھی جاتا رہا۔
اب وہ سردیوں میں بھی باسی ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے۔ ٹوٹی ہوئی چٹائی پر نماز پڑھتے اور پھر کھری چارپائی پر کندھے جھکائے ناشتے کا انتظار کرنے لگتے، لیکن شاہنی جی کی موت کا سب سے زیادہ اثر کھانے پینے پر ہوا۔
دھوپ منڈیر پر چمکنے لگتی، بچے بستے سنبھال کر گلی میں سے جاتے دکھائی دیتے۔ ڈاکیہ چکر لگانے لگتا لیکن شاہ جی کے منہ میں کھیل تک نہ جاتی۔ ایک بڑھاپا دوسرے بے مصرف اجاڑ زندگی، بھوک بھی زیادہ لگتی تھی اور بڑی بہو کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ بے چاری ایک جان اور آٹھ بچے … بچے بھی اس رفتار سے اس گھر میں آئے تھے جیسے ریل گاڑی کے ڈبے پلیٹ فارم میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے قطار باندھے دیکھتے ہی دیکھتے شاہ جی کا دالان کلبلاتے بچوں سے بھر گیاّ شاہ جی کا دھیان یہاں کون کرتا، بڑی بہو تو اپنے آخری بچے ببو کو بھی جان کا روگ سمجھتی تھی۔ بے چارہ سوکھی روٹی کا ٹکڑا لے کر ڈیوڑھی میں آجاتا اور شاہ جی کی چارپائی سے لگ کر کھڑا ہو جاتا۔ شاہ جی پوچھتے: ’’کیوں بھائی اندر سب ناشتہ کرچکے؟‘‘
’’ناشتہ؟‘‘ ببو پیٹ کھجلا کر سوال کرتا۔
’’تم نے دودھ پی لیا؟‘‘
’’نئیں۔‘‘
’’بی بی نے روتی پکائی؟‘‘
’’پکالئی اے دادو جی…‘‘ ببو ہی ایسا فرد تھا جو شاہ جی کو دادو پکارتا تھا ورنہ اس گھر میں جو اسے مخاطب کرتا اپنی مرضی کے مطابق نام لے کر پکارتا۔
بس ببو اور شاہ جی کا ساتھ تھا۔ شاہ جی کو پنشن کے جو پندرہ روپے ملتے تھے۔ ان میں سے وہ تین روپے اپنی تہمد کی ڈب میں باندھ کر رکھ چھوڑتے۔ ’’کھیل بتاشے‘‘ والا آتا تو شاہ جی کچھ نہ کچھ خرید کر ببو کو دیتے۔ وہ گلی میںچھپ کر سب کچھ کھاتا۔ پھر منہ پونچھ کر آتا تاکہ بی بی کو پتہ نہ چلے…‘‘ پھر ملائی کی کلفی والا گزرتا تو بھی وہی ببو کی کفالت کرتے۔ ببو بھی ماں سے مانگنے کے بجائے ہمیشہ ڈیوڑھی میں آکر چارپائی کے پائے سے لگ کر کھڑا ہو جاتا اور حریص نگاہوں سے دیکھ کر کہتا: ’’دادو غبارے والا آیا ہے جی۔‘‘ شاہ جی اپنی مربعوں والی سبز تہمد کا ڈب لرزتی انگلیوں سے کھولتے اور کہتے: ’’لے اکنی لے جا اور دیکھ کسی کو بتانا مت۔‘‘
’’میں تو کہوں گا زبیدہ آپا نے لے کر دیے ہیں وہ کبھی کچھ نہیں کہتیں دادو جی…‘‘
لیکن پتہ نہیں ایک دن بڑی بہو سے کسی نے جاک ریہ پرچہ لگایا کہ مونگ پھلی والا شاہ جی کی ڈیوڑھی میں بیٹھا باتیں کر رہا ہے اور شاہ جی بیٹھے مونگ پھلیاں چبا رہے ہیں۔ ابھی تک بڑی بہو نے کبھی بوڑھے سسر سے یوں کھلے بندوں جھگڑا نہ کیا تھا لیکن آج وہ اوب گئی۔ گھر کے اتنے سارے کرچ، چھوٹے شاہ کی اتنی قلیل آمدنی اور بڈھے کو یہ چٹخارے سوجھے ہیں۔ دودھ بلو رہی تھی وہیں مکھن، لسی کا جھنجھٹ زبیدہ کے سپرد کیا اور ڈیوڑھی میں پہ نیچی۔ ’’اے شاہ جی تمہیں جو پنشن کے پندرہ روپے ملتے ہیں تو تین کیا تم اسی کارستانی کے لیے رکھتے ہو؟‘‘
بڑی بہو سے آج تک شاہ جی نے کبھی ٹکر نہ لی تھی جی ہی جی میں لرز گئے اور سوچنے لگے کہ اگر میں اپنی بیٹی کے گھر چلا جاتا تو شاید یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ بیٹیاں ہمیشہ ماں باپ کی عزت کرتی ہیں، بارہ روپے اگر گاؤں میں بیٹی کو ملتے رہتے تو شاید میں اتنا بڑا بوجھ نہ بنتا۔
بڑی بہو نے جواب نہ پایا تو چلا کر بولی … مونگ پھلیاں کھاؤ اور میرے سینے پر مونگ دلو لیکن یہ یاد رکھوں کہ اگلے مہینے سے مجھے پورے پندرہ کے پندرہ نہ ملے تو اس گھر سے سوکھی روٹی بھی نہ ملے گی۔ قہر خدا کا … اتنی روحیں بھلا میں کہاں سے پالوں؟ ایک آدمی کو بارہ روپے میں سے کیا کھلاؤں اپنا سر…!‘‘
شاہ جی نے منہ سے ایک لفظ نہ کہا بلکہ مراقبے میں اور بھی جھک گئے … بڑی بہو کو اس رویے پر اس قدر جھلاہٹ ہوئی کہ نتھنے پھلاتی دو ہتڑ پیٹتی وہ اندر چلی گئی۔ راہ میں اسے نالی کے پاس ببو نظر آگیا۔ ببو آرام سے بیٹھا مونگ پھلی کے دانے نال کر چبا رہا تھا۔ ایک دانہ بھڑک کر نالی کے گندے پانی میں جاکر اتھاہ اور وہ اسے انگلی سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب بڑی بہو نے اسے جا دبوچا… ببو نے کچھ ایسی پٹخنی کھائی کہ ساری مونگ پھلیاں یک بارگی نالی میں جا گریں۔ طمانچے اس زور سے پڑے کہ الی چقندر کی طرح سرخ ہوگئے اور آنکھیں بیر بہوٹیاں بن ہوگئیں۔
شاہ جی نے جب ببو کی ایسی درگت دیکھی تو ان کا دل دہل گیا۔ آج تک انہوں نے کسی سے اونچی نیچی بات نہ کی تھی۔ مرے ہوئے کتے ایسی زندگی بسر کیے جا رہے تھے لیکن ببو کا سوجا ہوا چہرہ دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا، لاٹھی ٹیکتے زنانے میں گئے… بڑی بہو چنگیر میں روٹیاں دھرے دہی کے ساتھ بچوں کو کھلا رہی تھی۔ شاہ جی کھنکارے اور آہستہ سے بولے: ’’بڑی بہو، میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا اگر تم نے دوبارہ ببو پر ہاتھ اٹھایا تو اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’کیوں جی کیا اپنی اولاد کو بھی سیدھی راہ پر لانے کا ماں کو حق نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ بڑا ہوکر چٹورا بنے۔‘‘ ’’کچھ بھی ہو بہو… یہ بات دو بارہ نہ ہو۔‘‘ شاہ جی تو یہ کہہ کر واپس چل دیے لیکن انہوں نے بڑی بہو کی آواز سن لی۔ وہ زبیدہ سے کہہ رہی تھی: ’’ہمارے ٹکڑوں پرپل رہے ہیں اور اوپر سے گھمنڈ دیکھو۔ زیادہ سے زیادہ اپنی بیٹی کے پاس ہی چلا جائے گا نا، خس کم جہاں پاک۔ میں تو دو نفلیں پڑھوگی شکرانے کی۔‘‘
شاہ جی کا جیب خرچ بند ہوا تو سب سے زیادہ مشکل ببو کو پڑی۔ کھیل بتاشے والے نے دو دن تو ترس کھایا اور پھر ادھار دینے سے صاف انکار کر دیا۔ غبارے والا اب جھڑکنے لگا اور وہی مونگ پھلی والا جو ی وں شاہ جی سے گھل مل کر باتیں کیا کرتا تھا، اب چپکے سے ڈیوڑھی کے آگے سے گزر جاتا۔ کچھ دن تو ببو نے شاہ جی سے تقاضا کیا لیکن جب شاہ جی نظریں جھکاتے ہاتھ مل کر رہ گئے تو ببو نے ادھر ادھر سے پیسے کھسکانے شروع کر دیے۔ کبھی اماں کے دوپٹے سے دونی کھول لی، کبھی زبیدہ آپا کی تلے دانی میں اکنی نکال لی۔
ببو کی چوریاں کبھی نہ کھلتیں اگر وہ ایک دن عین موقع پر نہ پکڑا جاتا، ہاتھ میں اٹھنی تھی۔ سعیدہ آپا کا صندوق کھلا تھا کہ اماں آگئیں۔ ببو کا چہرہ مارے خوف کے زرد ہوگیا اور لپ کانپنے لگے۔ اماں بھانپ گئی بڑھ کر زبردستی مٹھی کھولی تو ٹھنٹھناتی اٹھنی پکے فرش پر گری۔ اماں نے پورے ہاتھ کا دھپا ببو کے سر پر مارا تو وہ انجانے میں کھلے صندوق میں گرا۔ سر سے لہو کا فوارہ چھوٹا۔ بڑی بہو کے چھکے چھوٹ گئے۔ جلدی سے ببو کو گود میں اٹھا کر باورچی کھانے کی طرف بھاگی۔ گھر بھر میں زلزلہ سا آگیا۔ کوئی دو پٹے کی پٹیاں بنانے لگا، کوئی گرم دودھ کا کٹورا لے کر بھاگا۔ صرف شاہ جی لاٹھی کے شہارے کھڑے چپ چاپ دیکھتے رہے۔ ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا لیکن جب ببو نے شاہ جی کے پاس جانے کی ضد کی تو بڑی بہو بھی لاچار ہوگئی اور ڈیوڑھی میں کھری چارپائی پر پہلی بار کھیس بچھا کر ببو کو اس پر لٹا دیا گیا۔ شاہ جی رات گئے تک چلم گرم کیے اپنی پگڑی کے کونے سے سینک دیتے رہے اور جب ببو سو گیا تو نہ جانے کی اکیا پڑھ کر اس پر دم پھونکتے رہے۔
صبح جب بڑی بہو کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ادھر ادھر سب آپس میں مشورے کرتے پھر رہے ہیں، کبھی دو مل کر کچھ کہتے ہیں، آوازیں ابھرتی ہیں اور پھر ڈوب جاتی ہیں۔ ایک سازش سی ہوا میں پھر رہی ہے۔ بڑی بہو نے تصدیق کی تو پتہ چلا کہ ڈیوڑھی خالی ہے۔ بھاگی بھاگی ادھر پہنچی تو کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ ڈھیلی ادوائن کی چارپائی دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ جابجا بجھی ہوئی راکھ کی ڈھیریاں پڑی تھیں۔ بدھنی اور چھوٹا صندوق جس میں شاہ جی اپنے دو چار بوسیدہ کپڑے رکھتے تھے غائب تھا، شاہ جی اور ببو کا کہیں پتہ نہ تھا۔ بڑی بہو نے ماتھا پیٹ لیا اور وہیں ڈھیر ہوکر رونے لگی۔ سارے بچے سہمے سہمے دروازے میں سے جھانکنے لگے اور زبیدہ نے آہستہ سے سعیدہ کے کان میں کہا: ’’تب تو اماں کہتی تھیں دو نفلیں شکرانے کی پڑھوں گی اب کیوں نہیں پڑھتیں شاہ جی تو خود ہی دفع ہوگئے۔‘‘lll