جس انسان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے اس کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ ’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ؐنے فرمایا: ’’مجھے میرے پرورگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔‘‘
۱- ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا، ۲- انصاف کی بات کہنا، غصے میں اور رضامندی میں، ۳- افلاس اور دولت مندی دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا، ۴- جو مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس سے قرابت کو قائم رکھوں، ۵- جو مجھے محروم رکھے میں اس شخص کو دوں، ۶- جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کردوں، ۷- میری خاموشی غور و فکر ہو اور میرا بولنا ذکر الٰہی ہو، ۸- میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو، ۹- اور میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘
ان میں سے اول خوف خد اہے۔ قرآن حکیم میں انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرنے کے لیے مختلف انداز سے دلائل دیے گئے ہیں۔ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ ہے کہ دیکھو اللہ نے تمہارے لیے دنیا کی تمام نعمتیں بنائی ہیں۔ یہ آسمان و زمین اور اس کے اندر کی تمام چیزیں یہ پہاڑ، دریا، درخت اور بارش برسا کر زمین سے تمہارے لیے رزق پیدا کیا وغیرہ۔ اس قدر نعمتیں اس رب نے انسان کو عطا فرمائی ہیں کہ اس نے فرمایا:
’’اگر تم اللہ کی نعمتیں گننے لگو تو شمار نہیں کرسکوگے۔ رب ذو الجلال نے انسان کو اپنی عطا کردہ نعمتیں یاد دلا کر کہا کہ دیکھو اب صرف مجھ سے ڈر اور میری نافرمانی سے بچو۔‘‘
اسی طرح انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی بات اور اس کی قدرت کا خوب تذکرہ کیا گیا۔ تاکہ انسان کے اندر خدا کا صحیح تصور پیدا ہوجائے اس لیے کہ اگر خدا کا تصور انسان کے دل میں پختہ ہوجائے تو پھر اس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہوجائے گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دور کے انسانوں کے واقعات بیان فرما کے انسانی نفسیات کو خوب واضح فرمایا کہ بعض لوگ اللہ کے احسانات و انعامات کی وجہ سے اللہ سے ڈرتے ہیں اور بعض لوگ اللہ کی قدرت کا مظاہرہ دیکھ کر ڈرتے ہیں۔ یہی کیفیات آج کے انسانوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ بسا اوقات انسان پر اللہ کی نعمتوں کی برسات ہو رہی ہوتی ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ تو میرا حق تھا اور یہ تو میری محنت اور زور بازو کا کمال ہے۔ بس اس غلط فہمی کی وجہ سے اللہ کا ڈر اس کے دل سے نکل جاتا ہے پھر اس کے دل میں شیطان اس طرح کے خیالات ڈالتا ہے کہ نماز سے کیا ہوتا ہے، تلاوتِ قرآن حکیم کی کیا ضرورت ہے، یہ تمام باتیں اللہ کا ڈر نہ ہونے کی علامات ہیں۔ پھر اسی انسان کو جب دنیا میں دکھوں اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے، کوئی قریبی عزیز بیمار ہو جاتا ہے یا خود کسی مالی یا ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر خوب قرآن حکیم کی تلاوت کرتا ہے، پانچ وقت نماز مسجد میں ادا کرتا ہے، اس لیے کہ اس کے دل میں اللہ کا یقین تو تھا۔ اگر یہی یقین انسان کے دل میں پختہ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے تو پھر اس ڈر کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا اور یوں یہ انسان ایک کامیاب زندگی گزارے گا۔ معلوم ہوا کہ کام یاب زندگی گزارنے کے لیے اللہ کا ڈر ہونا بہت ضروری ہے۔
قرآن مجید میں اللہ نے انسان کے اندر اپنا ڈر پیدا کرنے کے لیے جہاں اپنے احسانات و انعامات اور اپنی قدرت اور صفات کا تذکرہ فرمایا ہے وہیں انسان کو برے اعمال کے برے انجام سے بھی ڈرایا۔ انسان کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا کرنے کا ایک اہم محرک عقیدۂ آخرت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عقیدہ آخرت کے تمام پہلوؤں کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ انسان کو آخرت میں یعنی موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس کے ہر عمل کا اچھا بدلہ اور برے عمل کا برا بدلہ ملے گا۔
جب انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے تو اس انسان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی میں بہت سی خوش گوار اور عمدہ تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان باتوں کی نشان دہی فرمائی ہے جو اللہ سے ڈرنے کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔ ایسا شخص اللہ پر پختہ ایمان رکھتا ہے، پابندی سے نماز ادا کرتا ہے، جو کچھ اللہ نے اسے دیا اس میں سے خرچ کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ وہ جب وعدہ کرتا ہے تو پھر پورا کرتا ہے۔ اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ جب تنگ دستی، بیماری اور مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں۔
اللہ سے ڈرنے والوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کون سی چیز حلال اور کون سی حرام ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تو انسان متقی یعنی اللہ سے ڈرنے والوں میں اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ ہر اس چیز سے بچتا ہے جو دل میں کھٹکتی ہے۔ اس لیے کہ جب خوفِ خدا نصیب ہوتا ہے تو انسان مشتبہ چیزوں سے بھی بچتا ہے۔بلکہ بہ ظاہر چھوٹے گناہ کو بھی پہاڑ کے برابر سمجھتا ہے۔ ایسا انسان پھر دوسرے انسان کے حقوق کا بھی ہر مرحلے میں خیال رکھتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے لیے بہت سے انعامات بتائے ہیں جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ جیسے سورۂ حجرات میں فرمایا:
’’تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا شخص وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا اور وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
سورۂ انفال میں فرمایا:
’’اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تمہیں حق اور باطل میں فرق کرنے کی قوت عطا فرما دے گا اور تمہارے گناہ دور کر کے تمہیں بخش دے گا۔ پھر جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دوسری چیزوں کے ڈر سے نجات دیتا ہے۔‘‘
سورۂ بنی اسرائیل میں ہے۔ ’’جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا اور نیک ہوگئے ۱ن پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے۔‘‘
اللہ سے ڈرنے والوں پر برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔سورۂ اعراف میں فرمایا:
’’اگر اس بستی والے ایمان لے آتے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔‘‘
سورۂ البقرہ میں فرمایا:
’’اور تم مان لو بے شک اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں تو پھر اللہ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
آج معاشرے میں کسی کا تعلق کسی بڑے عہدیدے دار سے ہوجائے تو وہ کتنا فخر کرتا ہے اور یوں کہتا ہے کہ مجھے صرف اسی کا ڈر ہے اور کسی کا نہیں۔ اگر انسان کے دل میں صرف اپنے رب کا ڈر پیدا ہوجائے تو یوں کہنے لگے کہ مجھے تو صرف خدا کا ڈر ہے اور کسی کا نہیں تو پھر یقینا انسان کی زندگی کا ہر لمحہ سنور جائے۔lll