موجودہ زمانے میں خواتین کے حقوق پر کافی زور دیا جا رہا ہے۔ ان کے حقوق اور آزادی کی بازیافت کے لیے تحریکیں چل رہی ہیں، حکومتی سطح پر قانون سازی ہو رہی ہے اور معاشی طور پر انہیں خود کفیل بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ تمام کوششیں اس حیثیت سے قابل قدر ہیں کہ عورت کو، جو صدیوں سے تمام ہی تہذیبوں میں حاشیہ پر رکھی جاتی تھی، تعلیم و آزادی کی فضا فراہم کرنے میں معاون ہو رہی ہین اور اسے جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کی روشنی میں لا رہی ہیں نیز ظلم و ستم کے خاتمہ کی راہ بھی ہموار کر رہی ہیں۔ مگر اس تمام جدوجہد کا رخ یک طرفہ معلوم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں مرد و عورت کے درمیان کشمکش کا ماحول بتدریج بڑھ رہا ہے۔ وہ ذمہ داریاں جو عورت اب تک معاشرتی زندگی میں انجام دیتی رہی ہے اور وہ عین اس کی فطری ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی کو موجودہ زمانے کی عورت حقیر سمجھ کر ترک کرتی جا رہی ہے۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے مشرق و مغرب کا خاندانی نظام کمزور ہو رہا ہے اور بعض صورتوں میں کمزور ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا ہے۔ اس کے خراب نتائج کیا آ رہے ہیں اور معاشروں کو کہاں لے جائیں گے یہ الگ اور اہم بحث ہے، جس پر ماہرین سماجیات نے غور و فکر شروع کر دیا ہے۔ اور وہ اس کے غلط نتائج کے سد باب کے لیے راہیں سجھانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
حقیقت پسند اور متوازن طرزِ فکر و عمل کا تقاضہ یہ ہے کہ سماج کو اس سلسلے میں حقوق اور فرائض کا متوازن اور معتدل درس دیا جائے کیوں کہ سماج اور معاشرہ میں ان دونوں کے درمیان اعتدال اور توازن نہ ہو تو کشمکش، فساد، بے اطمینانی اور عدم اعتماد کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خاندانی اور معاشرتی زندگی کا سکون متاثر ہونے لگتا ہے، بنیادی اور ضروری کام اور ذمہ داریاں تساہل اور تغافل کی نذر ہوکر زندگی کو بے کیف بنانے کا سامان کرنے لگتی ہیں۔
معاشرے میں جب عورت کے حقوق اور اختیارات کی بات اٹھتی ہے تو اس کی سب سے پہلی زد مرد پر پڑتی ہے، اس کے کان کھڑے ہونے لگتے ہیں اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کس کس مقام پر اس کی زندگی متاثر ہوگی۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ ہمارا معاشرہ صدیوں پرانے روایات سے بندھے طریقے پر چل رہا ہے اور مرد در حقیقت اس میں کوئی تبدیلی دیکھنے کا روادار نہیں ہے۔ جب کہ دوسری جانب موجودہ زمانے کی آزاد خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کا وہ طرزِ زندگی اور طرزِ فکر ہے، جس نے نہ صرف سماج و معاشرت کے تانے بانے ادھیڑ ڈالے بلکہ فطری اور قدرتی تقاضوں کو بھی پس پشت ڈالتے ہوئے ’’آزادی سے لطف اندوز‘‘ ہونے کی ’’نئی راہیں‘‘ نکال لیں۔ اس طرح کی کیفیتوں نے ایک طرف تو سماج کے باشعور افراد کو خواتین کی اس طرز کی آزادی کی مخالفت کی دوسری طرف خواتین نے روایتی سماج سے بغاوت کا علم بلند کیا۔ حالاں کہ دونوں ہی افراط و تفریط کا شکار اور اعتدال و توازن سے دور ہیں۔ نہ سماج و معاشرے کا اور نہ ہی حقیقت میں عورت کا اس نام نہاد آزادی سے کچھ بھلا ہونے کی امید ہے اور نہ ہی روایتی سماج کی خواتین کے سلسلہ میں شدت پسند سوچ سے ان کو دباکر رکھا جاسکتا ہے۔
دونوں طبقات کی اسی غیر معتدل سوچ نے در اصل مشرق و مغرب دونوں معاشروں کو ایک انتشار اور مرد و عورت کے درمیان کشمکش کی کیفیت سے دو چار کر رکھا ہے۔ مغرب کی عورت آزادی کے دام میں گرفتار ہوکر اپنی فطری زندگی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اور مشرق کی عورت روایتی سماج کے جبر کا شکار ہوکر مغرب کی عورت کی آزادی کو للچائی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا تصور آزادی نسواں بھی عورت کو آزادی فراہم کرنے کے بجائے ایک نئے استحصالی نظام کے چنگل میں اسے پھنسا رہا ہے۔
ایسے میں ایک معتدل اور متوازن طرز فکر و عمل ہی ہوسکتا ہے جو دونوں طرح کی خواتین کا نجات دہندہ ہوگا۔ روایتی نظام زندگی سے نجات جتنی ضروری ہے اتنا ہی ضروری استحصال پر مبنی آزادی کے تصور سے نکلنا بھی ہے۔
دنیا کے نظاموں، مذاہب اور تہذیبوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کا طرزِ فکر و عمل اور اسلام کی قائم کردہ تہذیب عورت کو حقیقی آزادی، وقار و احترام اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر ہم مسلم ممالک میں خواتین کی صورتِ حال اور وہاں پر خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی صورتِ حال کو پیش کرسکتے ہیں جو مغرب یا مغرب زدہ معاشرے میں جرائم کے سیلاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔
مسلم معاشروں پر اہل مغرب اعتراض کرتے ہیں کہ اسلامی تہذیب میں عورت کو آزادی نہیں ہے۔ ہم بنیادی طور پر ان کے تصور آزادی کو درست تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ ان کے تصور آزادی کی بنیاد عورت کا صنعتی ترقی اور اقتصادی نمو میں ایک لیبر فورس کے طور پر استعمال ہے۔ جب کہ ہماری نظر میں یہ عورت پر زیادتی اور انسانی حیثیت سے اس پر اضافی بوجھ ہے جو وہ فطری ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ محض اس وجہ سے خوشی خوشی اٹھانے پر راضی ہے کہ اسے اچھی زندگی مل سکے گی۔ دنیا کا کوئی مرد بچے پیدا کرنے کی عورت کی ذمہ داری قبول کر ہی نہیں سکتا جب کہ عورت کی وہ فطری ذمہ داری ہے اور اسی ذمہ داری کو اہمیت و فوقیت دیتے ہوئے اسلام نے عورت کو معاشی زندگی کا مکلف نہیں بنایا لیکن اس کے لیے معاشی جدوجہد میں شرکت ناجائز اور حرام قرار نہیں پاتی۔
جو لوگ مسلم معاشروں میں عورت کی آزادی کو قید تصور کرتے ہیں ان سے ہم یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اس آزادی کی جنت میں یوروپ کی خواتین اسلام کی ’’قید‘‘ کو کیوں قبول کرنے پر آمادہ ہو رہی ہیں اور اس کے حصول کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے کیوں تیار ہیں۔ حقیقت میں وہ یہ سمجھ رہی ہیں کہ مغرب جس آزادی کا پیامبر ہے وہ آزادی نہیں بلکہ استحصال ہے اور اسلام کے متعلق جن پابندیوں اور قید کی بات کی جاتی ہے وہ قید نہیں بلکہ احترام اور عورت کا وقار ہے۔
ہم نے ایک مغربی خاتون کو سنا وہ کہہ رہی تھی کہ ’’لوگ سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ کی آزادی کو اسلام کی متعین کردہ قید باور کراتے ہیں، حالاں کہ دنیا بھر میں دولت مند اور معزز لوگ اس کام کے لیے ڈرائیور رکھتے ہیں اور خود گاڑی چلانے کو اپنے مرتبے سے فروتر تصور کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں اگر عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے تو اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ ان کو ڈرائیور فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی قید نہیں بلکہ تکریم ہے۔‘‘
ہمیں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام عورت کو ہر طرح کی آزادی دیتا ہے اس لیے کہ جو لوگ استحصال اور مفاد پرستی کو آزادی تصور کرتے ہیں اور تکریم و اعزاز کو قید اور پابندی گردانتے ہوں ان کو اسلام میں عورت کی آزادی کا قائل نہیں کیا جاسکتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ اہل اسلام اور مسلم معاشروں کو اسلام نے عورت کی آزادی و احترام کا جو درس دیا ہے اس کا حقیقی نمائندہ ضرور بننے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلم سماج میں بھی اسلام کی تعلیمات سے زیادہ سماجی و معاشرتی روایات کو اہمیت اور فوقیت دی جانے لگی ہے اور ان غیر اسلامی روایات کو اسلام بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جو حقیقت میں اسلام نہیں۔ اسلام تو وہ ہے جو حضور پاک نے پیش کیا اور اسلامی معاشرہ بھی وہی مثالی اسلامی معاشرہ ہے جو آپﷺ نے قائم کر کے دکھایا۔ ہمیں اس معاشرے سے نہ آگے جانے کی ضرورت ہے اور نہ اس سے پیچھے رہنے میں ہماری بھلائی ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کا قول تمام جاہلی اقدار و روایات کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہم عہد جاہلیت میں عورتوں کو کچھ بھی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن جب اسلام آیا تو اللہ نے ان کا ذکر کیا۔ لہٰذا ہم نے محسوس کیا کہ ہم پر عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔‘‘ (بخاری)
اسلامی معاشرے نے عورتوں کے حقوق کی عدیم المثال تاریخ قائم کی ہے جو میدان جہاد سے لے کر صنعت و تجارت محنت و زراعت، طب و صحت، علم و تحقیق یا شعر و ادب اور دیگر بے شمار میدان ہائے حیات میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑتا ہوا چلا آیا ہے۔
اس معاشرے کی سب سے بڑی خوبی یا کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہاں خواتین کو حقوق کے ساتھ فرائض اور ایثار کا درس دیا جاتا تھا، اور اسی طرح مردوں کو خواتین کے ساتھ حسن سلوک اور ’’رفقا بالقواریر‘‘ آبگینوں کے ساتھ نرمی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشرہ میں حقوق کے ساتھ فرائض کا بھی پختہ شعور تھا اور اس عہد کے مرد و خواتین اپنے حقوق کے حصول میں کسی بھی قسم کی کشمکش کے بجائے ایثار کو ترجیح دیتے تھے۔ اور ایسا اس وجہ سے کر تے تھے کہ انہیں اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس تھا اور اجر کے حصول کی امید ہوتی تھی۔
مغربی معاشرہ مادہ پرست معاشرہ ہے جہاں ہر فرد اپنے حق سے زیادہ کا حصول چاہتا ہے اور دوسرے کو اس کے حق سے کم ہی دینے کا خوگر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے سماج میں عورت کی آزادی نے مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش پیدا کر کے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر ڈالا۔
حقوق و فرائض کا پختہ شعور اور ایثار و قربانی وہ خوبیاں ہیں جو مسلم سماج کے مرد و خواتین کے فکر و عمل کو توازن فراہم کرتے ہیں اور اسے کسی بھی قسم کی باہمی کشمکش سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اور یہ چیز مغرب میں میسر نہیں جس کی وجہ سے ان کا سماج انتشار و انارکی کا شکار ہوگیا ہے اور اگر یہی چیز مسلم سماج میں کما حقہ رائج ہوجائے تو وہ آج کی دنیا کے لیے مثالی سماج بن سکتا ہے۔ یہی تو اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک ثقافتی چیلنج ہے مگر کیا مسلم دنیا اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟lll