’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے ’شعائر اللہ‘ قرار دیا ہے۔‘‘ (الحج:36)
’’شعائر‘‘ شعیرہ کی جمع ہے۔ شعیرہ اس محسوس علامت کو کہتے ہیں جو کسی روحانی اور معنوی حقیقت کی طرف متوجہ کرے اور اس کی یاد کا سبب اور علامت بنے۔ قربانی کے یہ جانور اس روحانی حقیقت کی محسوس علامتیں ہیںکہ قربانی کرنے والا دراصل ان جذبات کا اظہار کر رہا ہے کہ ان جانوروں کا خون در حقیقت میرے خون کا قائم مقام ہے، میری جان بھی خد اکی راہ میں اسی طرح قربان ہے، جس طرح میں اس جانور کو قربان کر رہا ہوں۔
قربانی اللہ کی نعمت کا عملی شکر ہے
’’اسی طرح ان جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے مسخر کر دیا کہ تم شکر کرو۔‘‘ [الحج:36]
خدا نے جانوروں کو انسان کے لیے مسخر فرما کر اس پر عظیم احسان کیا ہے۔ انسان ان جانوروں سے گوناگوں فائدے اٹھاتا ہے، ان کا دودھ پیتا ہے، ان کے گوشت کو غذا بناتا ہے، ان کی ہڈی کھال اور اون سے ضروریات کی نوع بنوع چیزیں تیار کرتا ہے، ان سے کھیتی باڑی میں مدد لیتا ہے، ان پر بوجھ ڈھوتا ہے، ان پر سواری کرتا ہے اور ان کے ذریعے اپنی شان وشوکت کا اظہا رکرتا ہے۔ قرآن ان فوائد کی طرف اشارہ کر کے اور ان کی تسخیر کا ذکر فرما کر خدا پرستی اور احسان مندی کے جذبات کو ابھارنا چاہتا ہے اور یہ طرزِ فکر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس خدائے بزرگ و برتر نے یہ عظیم الشان نعمت عطا کی ہے، اسی کے نام پر ان کی قربانی ہونی چاہیے قربانی خدا کی عظیم نعمت کا عملی شکر ہے۔قربانی خدا کی عظمت اور کبریائی کا اظہار ہے
’’خدا نے اس طرح چوپایوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس کی بخشی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی بڑائی اور کبریائی کا اظہار کرو۔‘‘ [37]
یعنی ان جانوروں کو خدا کے نام پر ذبح کرنا دراصل اس حقیقت کا اعلان و اظہار ہے کہ جس خدا نے یہ نعمت عطا کی ہے اور جس نے ان کو ہمارے لیے مسخر کر رکھا ہے، وہی ان کا حقیقی مالک ہے۔ قربانی اس حقیقتی مالک کا شکر ہے اور اس بات کا عملی اظہار بھی کہ مومن دل سے خدا کی بڑائی، عظمت اور کبریائی پر یقین رکھتا ہے۔
جانور کے گلے پر چھری رکھ کر وہ اس حقیقت کا عملی اظہار و اعلان بھی کرتا ہے اور زبان سے بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتا ہے۔
قربانی کی روح
اسلام سے پہلے لوگ قربانی کر کے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لاکر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ خدا کو تمہارے اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں۔ اس کے ہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ قربانی، گوشت اور خون کا نام نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لیے ہے اور اسی کی راہ میں قربان ہونے کے لیے ہے۔
قربانی کرنے والا صرف جانور کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا بلکہ وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کر ڈالتا ہے۔ اس شعور کے بغیر جو قربانی کی جاتی ہے، وہ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سنت نہیں بلکہ ایک رسم ہے، جس میں گوشت اور پوست کی فراوانی تو ہوتی ہے، لیکن وہ تقویٰ ناپید ہوتا ہے جو قربانی کی روح ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج:37 )
خدا کی نظر میں اس قربانی کی کوئی قیمت نہیں جس کے پیچھے تقویٰ کے جذبات نہ ہوں۔ خدا کے دربار میں وہی عمل قبول ہے، جس کا محرک خدا کا تقویٰ ہو، ارشاد ہے: ’’اللہ صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے۔‘‘ (المائدہ:27)