حج بیت اللہ عظیم انبیاء کی عظیم یادگار

بشیر احمد کاٹجو

حج کی فرضیت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، اپنی عورت سے صحبت نہ کرے اور گناہ کا کام نہ کرے تو جب وہ لوٹ اآتا ہے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہوتا ہے گویا اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنا ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، اگر اس سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول کرتا ہے اگر اس سے بخشش طلب کریں تو ان کو بخش دیتا ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ سے سوال کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے۔ فرمایا اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا، کہا گیا پھر کون سا؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، کہا گیا پھر کون سا فرمایا مقبول حج۔

دین اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر قائم ہے، حج بیت اللہ ان میں سے ایک اہم ستون ہے اور پھر ایک مسلمان کے لیے اس سے کوئی بڑی سعادت ہو ہی نہیں سکتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنے گھر کی زیارت کے لیے بلائے اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کا دیدار نصیب فرمائے۔ اپنے اللہ سے محبت اور عشق رسول ہی تو مومن کی اصل متاع ہے۔ بیت اللہ شریف کی زیارت میں آنکھ ٹکانا عبادت ہے اور روضۂ رسولؐ پر حاضری عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی علامت ہے۔ ایک مومن کی اس سے بڑھ کر اور کوئی تمنا ہو ہی نہیں سکتی، کہ اس دنیا میں ہی وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کو اپنی ان حقیر آنکھوں سے دیکھ لے، جس سرزمین پر اللہ کی محبوب ترین ہستی نے قدم رکھے ہوں وہاں کا ایک ایک چپۂ زمین مقدس و زیشان ہے، جس سرزمین کو میرے آقا نے تیرہ سال تک دعوتِ دین کا مرکز بنایا ہو، جس سر زمین کا ایک ایک ذرہ یہ گواہی دے رہا ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی آپ نے پرچم توحید بلند رکھا، جہاں بدر و حنین کے معرکے برپا ہوئے، معرکہ احد و طائف کی تاریخ گواہ ہے کہاآپؐ نے ابلاغ دین کی دعوت کے سلسلے میں اس سرزمین کے ایک ایک فرد کو اپنی دعوت کا ہدف بنایا۔ یہ سب کچھ اس نسبت سے بھی شایان شان ہے کہ آپؐ کے جدامجد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جس توحید کے علم کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا، وہ علم توحید، نہ سرنگوں ہوا، نہ نمرود وہامان کے آگے سر جھکا، اس برگزیدہ اللہ کے اولو العزم پیغمبر نے آگ کے شعلوں میں بھی صدائے توحید کو بلند و برتر کیا، نہ وہ کسی سے دب سکا نہ کسی کے ہاتھوں میں بک سکا۔

قربانی کی عظیم تاریخ

حج میں قربانی کا عمل بھی نہایت ہی یادگار اور عظیم ترین اہمیت کا حامل ہے۔ یہ قربانی سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی یاد میں کی جاتی ہے۔ ہم تو ایک جانور کی قربانی کرتے ہیں، لیکن انہوں نے تو اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ہی قربانیوں سے عظمت ہے۔ ابھی آنکھ کھولی تھی کہ خود اپنے گھر میں ہی بتوں اور مورتیوں کا چمکتا دمکتا کاروبار ہوتے دیکھا، اسی کاروبار کے سبب ہی سے مال و دولت کی فراوانی دیکھی، عزت و جاہ کے مناظر دیکھے، لیکن قوت فیصلہ کی حالت بھی عجیب تھی، سوچ و فکر کے زاویے بھی کچھ نرالے تھے، کہا کہ جن بتوں کو ہم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں، میری سلیم فطرت تو ان کے آگے نہیں جھک سکتی۔ گھر سے نکالے گئے، بے یار و مددگار ہوگئے، اپنی سوچ میں تن تنہا تھے، لیکن نہ تو تنہائی کا غم تھا نہ کوئی دل میں خوف و خطر کی کیفیت ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بیزاری کا اعلان کیا اور نہ صرف اس سے نفرت کا اظہار کیا، بلکہ بت خانے میں جاکر بتوں کو توڑا، ان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور پھر اپنے اس نظریے میں اتنے اٹل تھے کہ جب بتوں کے توڑنے کی تفتیش ہوئی تو اس شہرت پانے والی ہستی کی طرف ہی انگلیاں اٹھیں کہ ایک نوجوان ابراہیم نامی ہے جو اس فکر کا حامل ہے۔

تفتیش کے دوران ہی ان کو لاجواب کیا کہ مجھ سے ان کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو، اپنے ان بتوں سے پوچھو کہ ان کے ساتھ کس نے ایسا کیا ہے اور پھر قوت دلیل بھی اتنی مضبوط کہ جب کہا گیا کہ یہ بت بولتے نہیں، تو فوراً فرمایا جو بولتے نہیں، تو پھر یہ تمہاری دعا و پکار کا جواب کیسے دیتے ہوں گے، اور پھر یہ کہ تم ان کو کیوں کر پکارتے ہو۔ فیصلہ ہوا کہ بری تعداد میں لکڑیاں جمع کی جائیں اور پھر اُن کو آگ کے الاؤ میں جلا دیا جائے، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس پر کوئی پچھتاوا نہیںتھا۔ ان کا عزم صمیم جوں کا توں تھا۔ طیبعت میں کوئی گرانی نہ تھی۔ اس پر کوئی غم و ملال نہ تھا۔ رنجیدہ و مضمحل نہ تھے۔ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے کی علامت بنے نظر آتے تھے۔ تائید خداوندی دیکھئے کہ نہ آگ کا الاؤ اُن کو راکھ بنا سکا اور نہ ہی دہکتی آگ ان کا کچھ بگاڑ سکی۔ عزیمت کی اس پہاڑ شخصیت نے دلائل کی دنیا میں بھی اپنا سکہ بٹھایا اور نہ صرف یہ کہ راہ فرار اختیار نہ کی اور اللہ کا اپنا فیصلہ صادر ہوا کہ میرے ابراہیم علیہ السلام کا کوئی بھی بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ’’ہم نے کہا ’اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم علیہ السلام کے لیے۔‘‘ اس طرح اللہ نے ان کو آگ سے بچا لیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیرانہ سالی میں اولاد کی خوش خبری دی تھی، اس نرینہ اولاد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، اکلوتے بیٹے کے ساتھ کسی بھی باپ کو کتنی محبت ہوسکتی ہے، قابل بیان نہیں، اور پھر اس طرح ایک اور مشکل ترین آزمائش سے دوچار ہوئے، خواب میں ایک عزیز ترین چیز کو اللہ کے نام پر قربان کرنے کا حکم ہوا۔ قرآن کریم میں ہے: ’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا، بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے کہا: ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، اسے کر ڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘ اس حکم خدواندی کی بجا آوری یقینا بڑے دل گردے کی بات تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں پورے اترے، یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے پہلے ہی ان کو بچا لیا، اور محفوظ رہے۔

اللہ پاک نے اعلان کر دیا کہ ہم نے اسے ایک عظیم ذبیحہ کے بدلے بچا لیا۔ اور پھر کہا کہ اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے قائم کر دیا۔

یہ قربانی وہی سنت ابراہیمی ہے، یہ حج بیت اللہ کے بیشتر ارکان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ کی یادگار ہیں۔ اس نسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ کا اسوہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے دین حنیف کی خاطر اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر بے گھر ہوئے۔ والدین عزیز و اقارب کو چھوڑ کر بے یار و مددگار ہوئے، اپنا آبائی وطن ترک کیا، ان کے گھرانے کو جو معاشرتی عزت حاصل تھی اس سے محروم ہوئے، اپنے کاروبار کو تج دیا، مال و اسباب کی فراوانی کو خاطر میں نہ لائے، تن تنہا ہونے کے باوجود بت خانے میں بتوں کو پاش پاش کیا، آگ کے الاؤ میں برضا و رغبت کود پڑے، کم سن بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ کو غیر آباد علاقہ میں بسایا، اپنے رب پر بے تحاشا توکل و یقین محکم کیا۔ حضرت اسماعیل کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور اس پر بیٹے کے وہ یادگار الفاظ کہ اللہ کا حکم ہے تو آپ کر گزریں مجھے آپ صابروں میں سے پائیں گے، زندگی اور موت کا مالک اپنے رب ہی کو سمجھا۔ یہ اطاعت گزاری اور وفا شعاری صرف اور صرف اللہ کے ان بندوں کو نصیب ہوتی ہے، جو سراپا اطاعت ہوتے ہیں، جو اللہ کی کبریائی کو پالیتے ہیں۔

حج امت مسلمہ کے ایک عالمگیر اجتماع کی حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف ممالک سے لوگوں کے آنے کے باوجود تمام لوگ اگرچہ مختلف قوموں، مختلف نسلوں، مختلف زبانوں، مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں لیکن حج کا یہ اجتماع سب کو ایک ہی مشترک لڑی میں پرو دیتا ہے، سب لوگ ایک ہی مرکز کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، یہاں پہنچ کر سب کا لباس، عبادت کا ایک ہی طریقہ سب کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ مستانہ ہوتا ہے۔ لبیک، اللہم لبیک لا شریک لک لبیک۔

مسلمانوں کی اس عبادت کے مقدس مقام پر بے مثال ہم آہنگی قابل دید ہوتی ہے، ایسی فضا اور ایسا پاکیزہ نظارہ دین اسلام کی برکات کے سبب ہی ممکن ہو سکا ہے، یہاں پر شاہ و گدا، سب ایک ہی مساوات میں نظر آتے ہیں۔ کاش کہ جس خدائے واحد نے ہمیں امت واحد بنایا ہے، مسلمان امت کے مسائل کی گتھی سلجھانے میں بھی ہم سب ایک ہونے کا ثبوت دیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146