تم وہ بہترین گروہ ہو جو لوگوں کے لیے اٹھایا گیا ہے تم بھلائیوں کا حکم دینے والے برائیوں سے روکنے والے اور اللہ پر ایمان رکھنے والے ہو۔ ‘‘ ( آل عمران:۱۱۰ )
دنیا میں مومن گروہ کا مقصد حیات دعوت الی اللہ، شہادت حق، بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں کی روک تھام کرنا اور دین قائم کرنا ہے۔ اس گروہ میں مرد و خواتین کی ذمہ داری یکساں ہے۔ جو کوئی اپنی یہ ذمہ داری ادا کرے گا، اجر پائے گا جو نہ کرے گا وہ محروم رہے گا۔ قرآن میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت لیکن ہو وہ مومن تو ہم اسے پاک زندگی دیں گے اور ان کو ضرور بدلہ دیں گے ان کے اچھے کاموں کا جو وہ کرتے ہیں۔ ‘‘ (النحل97)
اس کام کا بنیادی اور اولین مرحلہ دعوت دین ہے۔ یعنی جن انسانوں تک خدا کا پیغام نہیں پہنچا ، حتی المقدور ان تک ان کے خالق و مالک کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرنا۔ اگر دعوت دین صرف مرد حضرات پر فرض ہوتی تو مردوں تک ہی پیغام حق پہنچ پاتا۔ خواتین تک دعوت دین کیسے پہنچتی؟ چنانچہ فطری طور پر خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین تک حق کا پیغام پہنچائیں۔اس لیے دین کی ذمہ داری خواتین پر بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ مردوں پر ہے۔
اسلامی تہذیب کے مطابق ہمارے ماحول اور سماج میں مردوں پر بیرونی اور خواتین پر گھریلو ذمہ داریاں ہیں۔ نئی نسلوں کی تیاری، بچوں کی پرورش اور گھریلو کام خواتین کو بے حد مصروف رکھتے ہیں۔ گھریلو خواتین کے لیے بے حد مشکل ہوتا ہے کہ دعوتی کام کے لیے وقت فارغ کریں۔ لیکن ہر ایک کی نجات کا انحصار اس کے اپنے اعمال پر ہے۔ ہر ایک اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوگا۔ مرد آخرت میں خواتین کے کام نہیں آئیں گے۔ وہاں سب نفسی نفسی میں مبتلا ہوں گے۔ اس لیے خواتین کو اپنی روزمرہ گھریلو مصروفیات میں اس ضروری اور لازمی کام کے لیے ہر حالت میں وقت نکالنا چاہیے جس طرح کہ مرد اپنی بیرون خانہ ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد دعوتی اور تحریکی کاموں کے لیے وقت نکالتے ہیں۔
لیکن بھاری مصروفیات میں سے وقت نکالنا کس طرح ممکن ہے؟
(1) اس کے لیے بنیادی طورپر تو اپنی دینی ذمہ داری کی سمجھ اور احساس ہمارے اندر اُبھرنا چاہیے پھر اس کو ادا کرنے کی لگن اور تڑپ ہمارے اندرپیدا ہونی چاہیے۔ اپنے اندر یہ دونوں اوصاف پیدا کرنے کے لیے ہمیں، قرآن، سیرت پاکؐ، احادیث، صحابہؓ و صحابیاتؓ کی زندگیوں، فقہ، اسلامی تاریخ اور دینی لٹریچر کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔
(2) دوسرا اہم کام یہ کہ تحریک اسلامی سے ہماری گہری وابستگی قائم ہو۔ ہم اجتماعات میں پابندی سے شرکت کریں۔ تحریکی کاموں پر عمل پیرا ہونے سے ہمارے اندر جذبہ پیدا ہوگا اور ہمیں دعوتی کام کرنے کی تحریک ملے گی۔
اگر اپنی ذمہ داری کااحساس، تحریک سے مضبوط تعلق، دعوتی کام کرنے کا جذبہ اور بندگان خدا کو آگ سے بچانے کا احساس ہمارے دلوں میں نہیں تو یہ کام ہرگز نہیں ہوسکتا۔
(3) مصروفیات میں سے وقت نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا ہر کام متعین وقت پر ہو۔ ہم گھڑی کی سوئیوں کی طرح وقت کی پابندی کریں۔ وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔ اپنے کاموں کو منضبط کرنے کے لیے Time Management کی خوگر بنیں۔ بلا ضرورت اپنا قیمتی وقت برباد ہونے سے بچائیں۔ مثلاً سوشل نیٹ ورکنگ میں بہت مصروف نہ ہوں۔ ٹی وی، ریڈیو، ناول، اخبار، رسالے وغیرہ دیکھیں پڑھیں ضرور لیکن مقررہ اور محدود وقت پر، ہر وقت نہیں۔ اسی طرح پڑوسیوں، دوستوں اور اعزہ سے ملاقاتوں اور بنائو سنگھار اور سیر سپاٹے میں ضرورت سے زیادہ وقت برباد نہ کریں۔
(4) مصروفیات میں سے وقت نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے گھر میں افراد خانہ کے درمیان کام تقسیم ہو۔ ہم اپنے بچوں بچیوں میں اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ انہیں دوسروں کے کاموں میں تعاون کرنا اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا سکھائیں۔
گھر کے بعض کام کرتے ہوئے بھی دعوتی کام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً :
(1) بچے کو اسکول چھوڑنے جائیں تو کچھ لٹریچر ساتھ لے لیں، ٹیچر کو یا دوسرے بچوں کی مائوں کو یہ لٹریچر دیجئے۔ دعوتی گفتگو کے مواقع نکالیے۔
(2) ڈاکٹر کے پاس یا اسپتال یا بینک وغیرہ جائیں تب بھی ایسا ہی کریں۔
(3) چاول بیننے، ترکاری صاف کرنے یا کڑھائی بنائی کرتے وقت پڑوسن سے دعوتی گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔
(4) سفر کے دوران بھی دعوتی گفتگو کے مواقع نکالے جاسکتے ہیں۔
(5) تہوار، شادی بیاہ، خوشی اور غم کے موقعوں پر بھی دعوتی گفتگو کے مواقع مل جاتے ہیں۔
ضروری ہے کہ گھریلو کاموں کو اس طرح انجام دیں کہ ان میں وقت کی بچت ہوسکے، مثلاً :
(1) گھر کی صفائی کرتے وقت اوپر سے صفائی کرتے ہوئے نیچے کی طرف آیئے، مثلاً پہلے چھت اور دیواریں، پھر الماریاں، کھڑکی دروازے، ٹیبل، بیڈ پھر فرش صاف کیجئے۔ بے ترتیبی سے صفائی نہ کریں۔ آپ پہلے فرش صاف کرلیں گی پھر دیواریں صاف کریں گی تو فرش دوبارہ گندہ ہوجائے گا۔
(2) کم ٹمپریچر پر استری ہونے والے کپڑوں کو پہلے استری کیجئے۔ مثلاً پولیسٹر کے کپڑے پہلے اور کاٹن وغیرہ کے بعد میں کریں۔ زیادہ گرم استری سے کپڑے استری کرنے کے بعد پولیسٹر وغیرہ کو استری کرنے سے کپڑے جل بھی سکتے ہیں۔ یا استری ٹھنڈی کرنے میں وقت ضائع ہوگا۔
(3) بہت سے اناج اور دالیں وغیرہ پکانے سے چند گھنٹے پہلے ہی پانی میں بھیگودیں۔ بھیگی ہوئی چیزیں نرم ہوکر جلد پک جاتی ہیں۔ اس طرح وقت بچ سکتاہے۔
(4) پکاتے وقت ضرورت کی تمام چیزیں چولھے کے پاس رکھیں۔ عین وقت پر چیزیں ڈھونڈنے میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ چولھے پر چڑھا ہوا کھانا جلنے کا امکان بھی رہتا ہے۔
(5) تمام گھر والے ایک ہی وقت میںکھانا کھائیں۔ الگ الگ کھانے سے بار بار کھانا گرم کرنے، کھانا نکالنے ، برتن وغیرہ صاف کرنے کاو قت بچایا جاسکتا ہے۔
(6) گھر کے تمام کام کاج نپٹا کر پھر نہایئے تاکہ تھکن بھی دور ہوجائے اور جسم پر لگا گرد و غبار اور میل کچیل بھی دور ہوجائے۔ نہانے کے بعد صفائی یا دوسرے کام کرنے سے پھر تھکن اور آلودگی ہوجاتی ہے۔
(7) ایک بہت ضروری بات یہ ہے کہ کاموں کو سلیقے اور خوش اسلوبی سے انجام دیں۔ پھوہڑ پن سے کام کرنے سے کئی نقصانات ہوجاتے ہیں، مثلاً برتن ٹوٹ سکتے ہیں، دودھ ابل کر بہہ سکتا ہے، کھانا جل سکتا ہے، کپڑے جل سکتے ہیں، پھوہڑ پن سے کام کرنے سے یہ نقصانات تو ہوتے ہی ہیں وقت بھی بہت برباد ہوتا ہے کیونکہ کام بڑھ جاتا ہے۔ خوش سلیقگی سے نہ صرف وقت بچے گا بلکہ گیس، بجلی اور اشیاء وغیرہ کی بچت بھی ہوگی۔
(8) ایک قیمتی نسخہ یہ بھی ہے کہ گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھیں۔ اس طرح ہم ہر کام اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں۔ جس گھر میں ہر وقت تنائو ، رنجشیں اور جھگڑے ہوں اس گھر میں کوئی کام نہ وقت پر ہوگا نہ سلیقے سے۔ بک بک جھک جھک میں بہت سارا وقت بربا ہوجائے گا۔ جو نقصانات ہوں گے وہ الگ۔
’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ (التوبہ 71)
دعوتی کاموں میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنے گھر کے مردوں کو بھی دعوتی کام میں تعاون دیجئے۔ان کو تعاون دینے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً :
(1) انہیں کہیں پروگرام میں جانا ہے تو آپ اپنے ذمے کے کام مثلاً کھانا پکانا وغیرہ وقت سے پہلے ہی کرلیں تاکہ انہیں تاخیر نہ ہو۔
(2) انہیں پرسکون رکھیں۔ بات بے بات اور وقت بے وقت شکوے شکایات کے دفتر نہ کھولیں۔
(3) ان کی پسند نا پسند کا خیال رکھیں۔
(4) گھر کے اخراجات بجٹ کے مطابق چلائیں اور اخراجات پر مکمل کنٹرول رکھیں۔ فضول خرچیوں سے بچیں۔ طرح طرح کی فرمائشوں سے انہیں پریشان نہ کریں۔ اگر ان کی آمدنی محدود ہو تو سادگی اور قناعت پسندی اختیار کریں۔ آمدنی فراخ ہے تب بھی سادگی اور قناعت ہی اختیار کریں۔ کیونکہ یہ بہترین مومنانہ صفات ہیں۔ خوش حالی ہے تو زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی طرف شوہر کو متوجہ رکھیں۔رسموں، رواجوں اور تہواروں پر بے جا غیر اسلامی طور طریقوں سے دور رہیں۔ گھر کے مردوں اور بچوں کو نماز روزوں اور نوافل و اذکار کی پابندی کرائیں۔ اپنے سسرالی رشتہ داروں سے بہترین تعلق استوار رکھ کر بھی آپ اپنے شوہر کو خوشی اور امن و سکون سے ہمکنار کرسکتی ہیں۔ خدانخواستہ وہ اگر اپنی دعوتی ذمہ داریوں کو نہ سمجھتے ہوں تو اس طرف ان کی توجہ مبذول کرائیں۔ اگر ان کے ذرائع آمدنی مشکوک ہوں تو نرمی اور محبت سے انہیں سمجھائیں اور جب تک وہ مشکوک ذریعہ آمدنی ترک نہ کردیں انہیں نرمی سے سمجھاتی رہیں۔ انہیں قرآن حدیث اور صالح لٹریچر پڑھنے کی ترغیب دیں یا پڑھ پڑھ کر سنائیں۔اپنے بچوں کی اسلامی تربیت پر پوری توجہ دیں۔ باہر دعوتی کام کریں اور گھر پر توجہ نہ دیں تو اس کے اثرات بد دعوتی کام پر بھی پڑتے ہیں۔
آپ اگر غور و فکر کرتی رہیں تو انشاء اللہ دعوتی کام کرنے کے بہت سے مواقع اپنی گھریلو مصروفیات میں سے نکال سکیں گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے۔ آمین lll