حضرت زینب بنت رسول اللہ ﷺ

شاہ بلیغ الدین

ذی طویٰ کے مقام پر کچھ منچلے ایک اونٹ کو گھیرے کھڑے تھے۔ ان میں ہبار بن اسود بھی تھا، جس کے ہاتھ میں ایک برا سا نیزہ تھا۔ اونٹنی پر ایک خاتون سوار تھیں۔ کوئی پچیس برس کے لگ بھگ عمر تھی، ان کے ساتھ ایک نوجوان تھا، جسم پر ہتھار سجائے ہوئے اونٹ کی نکیل تھامے وہ مدینے کے راستے پر نکل جانا چاہتا تھا لیکن راستے میں شورش پسندوں نے گھیراؤ کرلیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ تم مکے سے باہر جاسکتے ہو نہ یہ خاتون! تکرار ہوئی بات بڑھی تو شرپسندوں میں سے ہبار بن اسود نے آگے بڑھ کر اپنے نیزے سے خاتون پر وار کیا۔ وہ اونٹ پر سے پتھر پر گریں، سخت چوٹ آئی انہیں بچہ ہونے والا تھا۔ اس چوٹ کی وجہ سے ان کا حمل گر گیا۔ کچھ دنوں وہ خاتون مکے میں رکی رہیں، جب انہیں صحت ہوئی تو مدینۃ النبیﷺ چلی گئیں۔ اس وقت تو ان کی جان بچ گئی لیکن اس چوٹ کی تکلیف نہ گئی اور بالآخر وہ اسی صدمے سے اللہ کو پیاری ہوئیں۔ یہ کوئی اور نہیں اللہ کے رسول کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب تھیں جن کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی تھا کہ وہ میری بیٹیوں میں سب سے افضل ہے۔ اسلام کی خاطر حضور اکرمﷺ کی محبت میں جو تکلیفیں حضرت زینبؓ نے اٹھائیں وہ ان کی بہنوں میں کسی نے نہیں اٹھائیں۔ یہ حاکم، طحاوی اور زرقانی کی روایت ہے۔

ہمیں بتایا گیا کہ دین کے لیے جو بھی مصیبتیں اٹھاتا ہے اس کے بڑے درجات ہیں۔ اللہ کے وہ بندے جو تبلیغ دین کا کام کرتے ہیں یا اسلام کے لیے اصولوں کی لڑائی لڑتے ہیں پھر آزمائش سے گزرتے ہیں وہ اسوہ حسنہ پر چلنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں اجر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے۔

حضرت زینبؓ بڑی خوش خلق تھیں، وہ رسولِ اکرمﷺ کی چہیتی، امہات المومنین کی آنکھوں کا تارہ اور بہنوں میں ہر طرح سے ممتاز تھیں۔

سیدہ زینبؓ اپنی بہنوں میں سب سے بڑی اور آں حضرتﷺ کی اولاد میں دوسری تھیں۔ جب آں حضرتؐ نے اعلانِ نبوت کیا تو اس وقت ان کی عمر دس برس کی تھی۔ طبری نے لکھا ہے کہ اپنی والدۂ ماجدہ کے ساتھ ہی انہوں نے اسلام قبول کیا اور ان کے بعد ان کی تینوں بہنوں رقیہ، فاطمہ اور ام کلثومؓ نے یہ شرف حاصل کیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت زینبؓ ہم عمر تھے۔ جس وقت حضرت خدیجہؓ کے کہنے سے دونوں ایمان لے آئے تو دونوں کی عمریں دس دس برس کی تھیں۔ لڑکوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حضرت علیؓ کو حاصل ہوا اور لڑکیوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حضرت زینبؓ کو حاصل ہوئی۔ والدۂ محترمہ کی وفات کے بعد حضرت زینبؓ ہی بہنوں کی نگران کار تھیں۔ حضرت رقیہؓ بیاہ کر حضرت عثمانؓ کے ساتھ حبشہ چلی گئی تھیں۔ حضرت فاطمہ اور سب سے چھوٹی بہن حضرت ام کلثوم کو ماں کا پیار بڑی بہن ہی کی طرف سے ملا۔ ہجرت کے وقت وہ طائف میں مقیم تھیں۔

حضرت زینب کے دو بچے تھے۔ ایک لڑکی جن کا نام امامہ تھا اور ایک لڑکا جن کا نام علی تھا، پوری مکی زندگی میں یہی بچے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور اپنی خالاؤں حضرت رقیہؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کے منظور نظر رہے۔ صحیح مسلم، ابوداؤد اور سنن نسائی کی روایت ہے کہ آپؓ نماز پڑھتے ہوتے اور یہ بچے آجاتے تو اپنے کندھوں پر سوار کرلیتے۔ رکوع و سجود کا موقع آتا تو انہیں اتار دیتے اور قیام کے وقت پھر دوش مبارک پر سوار کرلیتے۔ مکی زندگی کی شدید تبلیغی پریشانیوں میں یہی بچے اپنے برگزیدہ نانا اور نانی کا دل بہلاتے۔ فتح مکہ کے موقع پر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے یے نواسے علی زینبی ہی آپ کے ردیف تھے۔ انھی کو یہ منزلت بھی حاصل ہوئی کہ تطہیر کعبہ کے وقت اللہ کے رسول انہیں اپنے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر لے گئے اور انہی کو اپنے کندھے پر کھڑا کر کے خانہ کعبہ کی دیوار پر جو بت نصب تھا اسے تڑوا دیا۔ بت شکن علی زینبی جنگ یرموک میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔

حضرت زینبؓ اپنی بیاہتا زندگی میں بہت خوش رہیں۔ بخاری اور طبقاتِ ابن سعد میں ہے کہ ان کے شوہر حضرت ابو العاص نے انہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچائی۔ اللہ کے رسول نے ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں خطبہ دیا تو حضرت ابو العاص کی بڑی تعریف فرمائی۔ شوہر و بیوی ہنسی خوشی سے زندگی گزارتے تو اللہ کے رسول کو بڑی خوشی ہوتی۔ جن گھرانوں میں شوہرو بیوی لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں وہاں کئی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اللہ کے رسول امہات المومنین کے ساتھ بڑی خوش دلی سے رہتے تھے۔ گھریلو معاملات ہی نہیں کبھی کبھی امت کے مسائل میں بھی انہیں غور و فکر کرنے اور مشورہ دینے کا موقع عطا فرماتے تھے۔ انہیں تعلیم دیتے، ان کی تربیت فرماتے۔ آپؐ گھر پر ہوتے تو ان کے کام کاج میں شریک ہوجاتے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ازواجِ مطہرات کو کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ آپ سرتاج ہیں اس لیے شوہر کی حیثیت سے ہمیشہ آپ کی خدمت ہونی چاہیے۔ آپ کا اسوہ حسنہ تو یہ تھا کہ آپ خود دوسروں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ بیبیوں ہی کا نہیں نوکروں کا بھی ہاتھ بٹاتے تھے، اگرچہ آپ دنیاوی آسائش کو اپنے اہل بیت کے لیے پسند نہ کرتے تھے لیکن جو کچھ جس کے لیے مقرر تھا وہ دینے میں آپ نے کبھی کوتاہی نہ کی۔ معلوم ہوا کہ مسرت صرف دنیاوی آسائشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے رفیق و شفیق بننے سے حاصل ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’ہمارے گھر میں کبھی دو دو مہینے چولھا نہ جلتا لیکن آپ جب بھی گھر میں آتے مسرت کی لہر دوڑ جاتی تھی۔

صحابہ کرام سے اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ میری نظر میں وہ آدمی تم میں اچھا ہے جو اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو خوش رکھتا ہے۔ حضرت زینبؓ اور حضرت ابو العاصؓ کامیاب گھریلو زندگی کا بہترین نمونہ امت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جس گھر میں شوہر و بیوی ایک دوسرے سے جھگڑتے رہتے ہیں اس گھر سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ بچے بے راہ رو ہوجاتے ہیں اور گھر کا امن و سکون غارت ہو جاتا ہے۔

فتح مکہ کے بعد سرورِ عالم مدینہ لوٹے تو حضرت زینب انتقال کرگئیں۔ خیال ہے تیس بتیس برس کی عمر تھی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146