لڑکوں نوجوانوں سے سوال کریں کہ ان کی بنیادی ترجیحات کیا کیا ہیں تو بہت کم ایسے ہوں گے جو صحت کا ذکر کریں گئے۔ صحت کے علاوہ دنیا بھر کی اور باتیں بتا سکتے ہیں۔ لیکن صحت کا ذکر وہ گول کر جائیں گے جیسے ان کے نزدیک صحت کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ اوراس لاپرواہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر نوجوان اپنے آپ کو مکمل صحت مند خیال کیا کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دانت یا سر درد کے لئے گولیاں استعمال کرلیتے ہوں لیکن ان کے خیال میں یہ چیزیں خطر ناک نہیں ہوتیں بلکہ معمولی خرابیاں ہیں۔
صحت کی بنیاد تو بچپن ہی سے پڑجاتی ہے لیکن اسے توانائی نوجوانی میں ملتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ نوجوانی میں وہ اپنی صحت کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوں۔ اگر کسی نوجوان کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے تو وہ فطری طور پر سب سے پہلے اپنے والدین ہی سے رجوع کرتا ہے۔ کیونکہ والدین کا اثر اس کی شخصیت پر گہرا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ والدین جو مشورہ دے رہے ہیں وہ ٹھیک ہی ہوگا۔والدین ہی کا رویہ ان کی شخصیت اور اس کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ستر فیصدی امکان اس بات کا ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے والدین کی اولاد بھی سگریٹ نوشی کیا کرے لیکن کیوںکہ ان کے سامنے والدین کی مثال ہوتی ہے۔
لیکن صحت کی معلومات اور مشوروں کا ذریعہ صرف والدین ہی نہیں بنتے بلکہ بچہ اپنے ماحول، اپنے دوستوں ، ٹی وی، اخبارات اور رسائل کے ذریعے بھی بہت کچھ اخذ کر لیتا ہے لیکن بنیادی محور والدین ہی ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کتنے فیصد والدین کو نوجوانوں کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل ہیں؟ وہ کیا جانتے ہیں؟ اور وہ کس اندازے کے مشورے دے سکتے ہیں؟
سروے یہ بتاتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں کھانے پینے میں زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اس کا ثبوت اسکول اور کالج کے باہر یا اندر چاٹ ، دہی بڑے، آلو چھولے اور اسی قسم کی چیزیں فروخت کرنے والوں کے گرد لڑکیوں کا ہجوم ہے۔ ان اشیاء کی تیاری چونکہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی شاید اسی لیے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو صحت کے حوالے سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی صحت خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔
مسائل کے مرکز
غذا اور صحت کے درمیان نوجوانوں کے لئے مسائل کے کئی مرکز (پوائنٹس) ہوتے ہیں۔
وزن کو کم کرنے والی غذائیں بہت بھاری پڑ جاتی ہیں۔ہرلڑکی دبلی پتلی دکھائی دینے کے شوق میں مبتلا ہو گئی ہے اس لئے وہ یا تو فاقے کرنے لگتی ہے یا پھر صحت بخش غذاؤں کا استعمال ترک کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر موٹاپے سے بچنے کے لئے وہ آلو اوروغنی اشیاء کا ستعمال چھوڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک طرف تو چکنائی سے محفوظ رہتی ہے لیکن دوسری طرف وہ معدنیات اور ضروری وٹامنز کی کمی کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔ اگر وہ موٹاپے سے بچنے کے لیے دودھ پینا بھی چھوڑ د ے تو اس کی ہڈیاں کمزور ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔
کیلشیم کی کمی
انسانی ڈھانچے کا زیادہ تر انحصار کیلشیم پر ہوتا ہے یہ کیلشیم دودھ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکے تو کسی حد تک دودھ پی بھی لیتے ہیں لیکن لڑکیاں دودھ کا استعمال ترک کر دیتی ہیں۔
انسانی ڈھانچے کو مضبوط اور توانا رکھنے کے لئے عمر کے دو ادوار ایسے ہوتے ہیں جب جسم کو کیلشیم کی ضرورت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ ایک اْس وقت جب بچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے تاکہ اس کی ہڈیوں کی بنیاد مضبوط ہو سکے اور دوسرے اْس کی جوانی میں۔
لہٰذا اس عمر میں کیلشیم سے بھر پور غذاؤں کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ خالص دودھ کے علاوہ دودھ سے تیار کردہ چیزیں بھی کیلشیم کے حصول کا بڑا ذریعہ ہوتی ہیں۔اگر بچہ یا نوجوان دودھ کا استعمال نہ کرے تو اسے دوسری چیزوں کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔
خون کی کمی
نوجوانوں میں خون کی کمی کی شکایت عام ہوتی جا رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ انہیں اپنی غذا میں مناسب آئرن نہیں مل پاتا۔ لڑکیاں خاص طور پر اپنے ایام کی وجہ سے اس کا شکار ہوتی ہیں۔اس وقت دس میں سے پانچ لڑکیاں خون کی کمی کا شکار ہو تی ہیں۔ گوشت ، سبزیوں ،دلیہ وغیرہ کے ذریعے وہ آئرن حاصل کر کے اپنے جسم میں آئرن کی کمی کو دور کر رکے خون کی پیداوار میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
کھانا یا ناشتہ گول کر جانا
اس کے لئے اس سے بہتر اصطلاح اور کیا ہو سکتی ہے کہ فیش میں یا جلد بازی میں بہت سے نوجوان ناشتہ یا لنچ وغیرہ چھوڑ دیتے ہیںخاص طور پر لڑکیاں۔ اور جب انہیں بھوک لگتی ہے تو اسنیکس وغیرہ کھا کر بھوک کو مٹانے کو کوشش کرتے ہیں۔
خوراک بڑھانے کا عمل
صحت مند غذا حاصل کرنے کا عمل دوسرے ایج گروپ سے زیادہ نوجوانوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ غذا کے ذریعے اپنی صحت اور اس سے وابستہ مستقبل کو مضبوط بنا رہے ہوتے ہیں۔
نوجوانوں کو ہر قسم کی غذا استعمال کرنی چاہیے۔ وہ تمام چیزیں جن میں صحت مند اجزا پوری مقدار میں موجود ہوں۔ ہر قسم کا اناج، دلیہ ، تازی سبزیاں ، وتازے پھل، انڈے ، دودھ ،دہی ،پنیر ، غرضیکہ وہ سب کچھ جن میں معدنیات، آئرن ، وٹامن اور کیلشیم وغیرہ موجود ہوں۔ نوجوانوں کو اپنے وزن کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لئے زیادہ اور صحت مند کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن وہ زیادہ چکنائی اور شوگر سے پرہیز بھی کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کھانے سے بیزاری محسوس نہ کریں بلکہ کھانے کو اللہ کی نعمت جانتے ہوئے اس سے لطف اندوز ہوں۔
والدین کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوانوں کوقوت بخش چیزیں کھانے پر آمادہ کریں۔ انہیں احساس دلائیں کہ گھر میں جو کچھ پک رہا ہے وہ باہر کے کھانوں سے بہت اچھا ہے۔ اگر ہو سکے تو کھانا بناتے ہوئے نو جوانوں کو بھی شامل کر لیا کریں یا کم از کم ان کی پسند او ران کی فرمائش معلوم کر لیں۔ اس طرح وہ اپنی فرمائش کے کھانے خود ہی کھانے لگیں گے۔
ورزش اور کھیل کود
آج کل کے بچوں کے طرز زندگی کی سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ انہوں نے کھیل کود اور ورزش کا شوق بہت کم کر دیا ہے۔ اس آرام طلبی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ بچے دور دراز کے اسکولوں میں بھی پیدل جایا کرتے تھے مگر اب والدین گاڑیوں میں یا موٹر سائیکلوں پر لے جاتے ہیں۔ قریب کے اسکول کا بچہ بھی کم از کم اسکول وین پر تو ضرور جاتاہے۔ پیدل چلنے کی عادت ہی ختم ہوتی جارہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک اسکولوں میں اسپورٹس کو خاص اہمیت حاصل تھی لیکن اب وہ اہمیت بھی بہت کم ہو گئی ہے۔ اسکولوں میں وزرش اور پی ٹی وغیرہ کا رواج کم ہوتا جا رہاہے۔ بہت کم بچے ان میں حصہ لیتے ہیں۔
آج کل طرح طرح کے حادثات بھی رونما ہونے لگے ہیں۔ اس لئے والدین حفاظتی نقطہ نظر سے بھی بچوں کو کھیل کود کی کم ہی اجازت دیتے ہیں۔ بہرحال وجوہات چاہے جو بھی ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ آج کے بچے ورزش اور کھیل کود میں دلچسپی کم ہو رہی ہے اور اس عدم دلچسپی کے نقصانات یقینا ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ورزش کے فائدے
باقاعدہ ورزش صحت مند رہنے کا سب سے بہتر اور موثر ذریعہ ہے۔ ورزش سے جسم پر چکنائی جمع نہیں ہوتی اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ ورزش سے نہ صرف پھیپڑوں اور دل کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ عضلات بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ جسم کے جوڑ بہتر طور پر حرکت کرتے ہیں اور ایک پر سکون نیند بھی حاصل ہوتی ہے۔ ورزش سے بھوک کھل کر لگتی ہے۔ بیماری کا خطرہ کم ہو تا ہے اور بچہ چست و چالاک ہو جاتا ہے۔ دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس بچے میں توانائی موجود ہے ورزش سے خود اعتمادی پیداہوتی ہے۔ اور انسان ہر وقت الرٹ رہتا ہے۔
کھیل کود میں حصہ نہ لینے والے بچوں کی ورزئش
بہت سے بچوں کو کھیل کود کا کوئی شوق نہیں ہوتا۔ وہ یاتو مقابلوں میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں یا پھر ان کا مزاج ہی اس قسم کا ہوتا ہے۔ یہ والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ایسے بچوں کو چست اور چالاک رکھنے کے لئے کیا کریں ، اْنہیں کس طرح مضبوط بنائیں کہ وہ آگے چل کر صحت مند نوجوان بن سکیں۔ ایسے بچوں کے لئے ایسے کھیل درکار ہیں جن میں انہیں کسی سے مقابلہ نہ کرنا پڑے۔
لڑکیوں کو ایکسر سائز کی ہوم ویڈیولاکر دیں، تاکہ وہ بندکمرے میں ویڈیو دیکھ کر ورزشیں کرتی رہیں، جمناسٹک وغیرہ بھی سیکھ سکتی ہیں۔ لڑکے بھی یہ کر سکتے ہیں۔ سب سے بہتر ورزش تیراکی ہے۔ اگر موقع ہو اور حالات اجازت دیں تو بچوں کو تیراکی ضرور سکھائیں۔
آپ ایسے بچوں کو اپنے ساتھ ہفتے میں دو تین بار جاگنگ یا واک کے لئے بھی لے جا سکتے ہیں۔ کم ازکم ایک میل کی واک مناسب رہے گی۔ سائیکل چلانا بھی ایک اچھی ورزش ہے۔ یہ ایسی ورزش ہے جو بچہ انفرادی طورپر کر سکتا ہے۔lll