تربیت اولاد اور حضرت لقمان ؑ کی نصیحتیں

مجتبی فاروق، حیدر آباد

ایسے پُرفتن دور میں جبکہ نئی نسل کے اخلاق و کردار کو بگاڑنے اور عقائد وایمان میں فساد پیدا کرنے کے لیے ماحول سازگار ہے اور برائیوں کی گرفت پورے سماج پر مضبوط ہوتی جارہی ہے، حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحتیں تربیتی نظریے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔

ان کی یہ نصیحتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، موجودہ دور کے والدین کے لیے چشم کشا اور ان کی توجہ کو تربیتِ اولاد کی طرف خاص طور پر متوجہ کرنے والی ہیں۔ حضرت لقمانؑ کی یہ نصیحتیں اور ان کی تربیت اولاد کی فکر جہاں اہلِ اسلام کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کرتی ہے وہیں ان کو یہ بھی بتاتی ہے کہ اولاد کی تربیت کے خطوط کار کیا ہوں اور والدین اس معاملے میں کن بنیادی باتوں کو لازماً پیش نظر رکھیں۔ سورہ لقمان کا بہ غور مطالعہ اور اس میں بیان کردہ تربیتی نکات پر غوروفکر کیا جائے تو والدین کو ایک بہترین تربیتی گائیڈ مل سکتا ہے جس میں بنیادی طور پر ان تمام خطوط کا احاطہ ملے گا جو انسانی زندگی کو فکری و عملی لحاظ سے کامیاب انسانوں میں مقبول اور اللہ کا پسندیدہ بندہ بناسکتی ہیں۔

حضرت لقمان نے اگرچہ یہ نصیحتیں اپنے بیٹے کو کی ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ فکری اور عملی ماڈل ہیں ان والدین کے لیے جو اپنی اولاد کی دنیا و آخرت میں کامیابی کے تمنائی ہیں اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں۔

حضرت لقمانؑ کے نصائح جہاں والدین کے لیے رہنما ہیں وہیں نئی نسل کے لئے انمول موتیوں کی طرح ہیں جن میں ایک نوجوان کو سماج کے تئیں ذمہ دار اور حساس شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان نصائح میں توحید کی تعلیم ، حسن خلق ، تواضع کی ترغیب اور اخلاق خرابیوں جیسےخود پسندی و شیخی اور تکبر و غرور کی مذمت کی گئی ہے ۔یہ وہ برائیاں ہیں جو انسان کی شخصیت کے ارتقاء اور تزکیہ نفس کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔

سب سے پہلے توحیدیا رب کی وحدانیت کی تعلیم دی گئی ہے۔موجودہ زمانے میں جبکہ نوجوانوں کا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ذات پر ایمان بے حد کمزور ہو گیااور اس سلسلے میں وہ طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوچکے ہیں، ان تعلیمات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ایک باپ، استاد اور مربی کو اپنے بیٹے، شاگرد اور مرید کے دل و دماغ پر اللہ کی وحدانیت اور اس سے محبت کاواضح تصور پیدا کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی یہ نصیحت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے :

يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۝۱۳ (لقمان:۱۳)

ترجمہ:’’اے میر ے پیارے بیٹے ،اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانابے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘

حضرت لقمان علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے بیٹے کو عقیدہ توحید اور اللہ کی وحدانیت کا تعارف کرایا ہے، کیوں کہ اگر عقیدہ توحید درست ہوجائے تو اللہ کی بندگی اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا بہت آسان ہوجاتا ہے ۔عقیدہ توحید یہ ہے کہ اللہ ہی خالق و مالک اوررب ہے اور اسی کی خالص بندگی کرنی ہے اور اسی کے ہوکر رہنا ہے ۔یہ ایمانیات کا سب سے اہم جزء ہے اور گویااس کو Stabilizerکی حیثیت حاصل ہے۔ یہی عقیدہ ایک نوجوان کو عدل و انصاف پر قائم رکھ سکتا ہے اور اسی عقیدہ سے اس کی منتشر زندگی میں ٹھہراؤ آسکتا ہے ۔

توحید کے بعد بنیادی جز آخرت کا تصور ہے اور اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جو کچھ بھی ہم کریں گے اللہ تعالیٰ کےپاس اس کا حساب دینا ہوگا۔ یہی وہ بنیادی تصور ہے جو ہمیں برائی سے باز رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دوسری نصیحت یہ کی کہ اللہ کے علم سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے ۔

يٰبُنَيَّ اِنَّہَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَۃٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِہَا اللہُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ۝۱۶ (لقمان:۱۶)

ترجمہ:’’اے میرے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہوپھروہ خواہ کسی چٹان میں ہویاآسمان میں ہو یازمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا۔‘‘

نئی نسل کے ذہنوںمیں یہ تصور راسخ کرناہوگاکہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہورہاہے، اللہ تعالیٰ اس سے ہر لمحہ اور ہر آن باخبر رہتاہے، اتناہی نہیں بلکہ انسان کے دل میں پیداہونے والے خیالات اور اس کے حرکات و سکنات سے بھی باخبر رہتاہے۔ اس سے بھی زیادہ باریک چیز یعنی پتھرمیں پائے جانے والے کیڑے کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ بخوبی جانتاہے ۔اگر یہ تصور والدین اپنی اولاد کے ذہن میں راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیں کہ برائیوں کا طوفان اور فساد زدہ سماج بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔

تیسری نصیحت اللہ سے قریب ہونے یعنی نماز کو قائم کرنے کے متعلق ہے۔ یيٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ (لقمان:۱۷)اور چوتھی نصیحت سماج کو صحیح و سالم اور صحت مند رکھنے کے حوالے سے ہے جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کی ہدایت ہے ۔ اس کے بعد اس راہ میں جن مصائب ومشکلات کا سامناکرنا پڑے ان پر صبر کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔

وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۷ۚ (لقمان:۱۷)

ترجمہ:’’اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اس راستے میں جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کرو۔ بیشک یہ بڑے عزم و حوصلے کی بات ہے۔‘‘

برائی سے روکنا اور نیکی کا حکم دینا انبیائی مشن بھی ہے اور برائیوں کے ماحول میں اپنی ذات کے گرد تحفظ کا حصار بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ جو شخص نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کا مشن لیےہوگا اس کے خود برائی میں مبتلا ہونے کے امکانات کم سے کم ہوجائیں گے، پھر اس سے آگے بڑھ کر زندگی میں لاحق ہونے والے مصائب و مشکلات پر صبر ہے جو ایسی خوبی ہے کہ انسان اس کی بنیادپر کردار کے اعتبار سے ایک مضبوط چٹان بن جاتا ہے۔

اب سلسلہ شروع ہوتا ہے ان اخلاقی برائیوں کا جو حقیقت میں انسانی زندگی کے لیے تباہ کن ہیں اور اس کے اخلاق و کردار کو ملیامیٹ کردیتی ہیں۔ انھوںنے فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ (لقمان:۱۸)

ترجمہ:’’لوگوں کے سامنے اپنی گردن نہ اکڑاؤ۔‘‘

یعنی تکبر کے ساتھ لوگوں سے معاملہ نہ کر اور نہ ہی منہ پھیر کر بات کر۔ ـ’’ صعر ‘‘ اصل میں ایک بیماری کا نام ہے جو عرب میں اونٹوں کی گردنوں میں پائی جاتی ہے۔یہ بیماری جب اونٹ کو لگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ ایک اور انمول نصیحت یہ بھی فرمائی ہے کہ غرور کا لبادہ اوڑھنے سے پرہیز کیاجائے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کا ارشادہے :

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝۱۸ۚ ( لقمان:۱۸)

ترجمہ: ’’یعنی زمین پر اتراکر نہ چل اللہ خودپسند اور فخرجتانے والے کسی بھی شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

یہاں اس بات کی تفہیم کرائی گئی ہے کہ علم و عمل کے لئے خود پسندی، تکبر، فخر جتانااور شیخی بگھارناسم قاتل ہے اور علم و عمل میں اضافہ کرنے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے ،اس لئے اس سے گریز کیا جائے ۔ خود پسند ،متکبر اور فخر جتانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ ہر گز پسند نہیں کرتا ہے ۔اس کے بعد لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو درمیانی چال اختیار کرنے کی تلقین کی یعنی ایسی چال جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہو اورجس میںغرور و تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔ آخری نصیحت یہ تھی کہ بیٹے ذرا اپنی آواز پست کرکیوں کہ چیخنا چلانایاکرخت لہجہ میں بات کرنا مؤمن کا شیوہ نہیں ہے ۔نیز آوازوں میںسب سے بدتر آواز گدھے کی ہے۔حضرت لقمان فرماتے ہیں:

وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۝۰ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۝۱۹ۧ (لقمان:۱۸)

ترجمہ: ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔‘‘

حضرت لقمان کی ان نصائح سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک صحت مند سماج کوکن بنیادوں اور اصولوں پر تشکیل دیا جائے اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تطہیر کے لئے ایک خاندان اور اور اس کا سربراہ اپنی نسل کی تربیت کن خطوط پر کرے، کن برائیوں سے بچنے بچانے کی تلقین ہو اور کن خوبیوں کو پروان چڑھایا جائے۔ یہ ایسی کار آمد نصائح ہیں کہ ان کے بغیر نہ تو ایک خوبصورت خاندان اور معاشرہ کا وجود ممکن ہے اور نہ ہی نئی نسل کی دینی واخلاقی تربیت کی جاسکتی ہے۔

حضرت لقمان کی ان نصیحتوں اور ان کی حکمتوں کو سب سے پہلے والدین کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے اورپھر ان سے ملنے والی رہنمائی میں اپنی نسل کی تربیت کرنی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ سورئہ لقمان کا خاص طور پر بہ غور مطالعہ کریں اور قرآن و حدیث کو عام طور پر اپنے لیے رہنما بنانے کی فکر کریں۔

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146