کورونا وائرس سے کون واقف نہیں۔ اس انتہائی ننھے سےوائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کو کو وڈ- 19 کا نام دیا گیا ہے۔ چین کے ایک شہر ووھان سے شروع ہوکر پورے کرہ ارض اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کروڑوں لوگ اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے لاکھوں لوگ اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ۔ جو لوگ اس بیماری لگنے کے بعد بچ گئے ہیں ان میں سے بھی ایک اچھی خاصی تعداد کو اس کے نتیجے میں طویل صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا تو یہ کہ ہم اس بیماری سے بچنے کی بھر پور کوشش کریں اور جتنی احتیاطی تدابیر کر سکتے ہیں وہ کریں۔
یوں تو اپنی صحت کا خیال رکھنا ہر فرد کے لیے ضروری ہے لیکن حاملہ خواتین کے لیے اور بھی ضروری ہے کیوں کہ نہ صرف حاملہ خاتون کو اس بیماری سے محفوظ رکھنا ہے بلکہ ہونے والے بچے کو بھی اس سے بچانے کی بھرپور کوشش کرنی ہے۔تو آئیے ہم دیکھیں کہحاملہ خاتون خود کو اور اس بچے کو ، جو اس کے پیٹ میں ہے اور جس کی پرورش کی خاطر وہ بے پناہ قربانیا ں دے رہی ہے اور بہت سی تکلیفیں برداشت کر رہی ہے، کووڈ 19 سے بچانے کی اپنی حد تک کیا کوششیں کر سکتی ہے۔ ان کوششوں میں اور احتیاطی تدابیر میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں:
احتیاطی تدابیر
(1) جتنی جلد ممکن ہو، حاملہ خاتون کووڈ ویکسین (اس بیماری سے بچنے کا ٹیکہ) لگوائیں جس سے اس کے جسم میں وہ مدافعتی خلیے (اینٹی باڈیز) بن جائیں گے جو کورونا وائرس اس کے جسم پر حملہ آور ہونے کی صورت میں ان کے خلاف لڑ کر ان کا خاتمہ کر دیں گے (ان شااللہ!) ۔ اس کے بارے میں آپ کو کوئی ہچکچاہٹ ہو تو ضرور کسی مستند ڈاکٹر سے یا اپنی گاینا کالوجسٹ سے مشورہ کر لیں۔
(2) انتہائی شدید ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔
(3) باہر جانا ہی پڑے تو اپنے چہرے اور ناک کو ماسک (نقاب) سے ڈھک کر رکھیں۔ باہر کسی سے ہاتھ ملانے، گلے ملنے وغیرہ سے پرہیز کریں بلکہ لوگوں سے کم از کم دو میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ بس، ٹرین اور دوسری عوامی سواریوں میں سفر نہ کریں۔ جہاں ہجوم ہو وہاں نہ جائیں۔ جتنی جلد ہو سکے، گھر واپس آ جائیں۔
(4) گھر واپس آ کر سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے ہاتھ نیم گرم پانی اور صابن سے کم از کم بیس سکینڈ تک دھوئیں۔ اس سے پہلے اپنے چہرے، ناک اور منہ کو نہ چھوئیں۔
(5) گھر کی کھڑکیاں اور روشن دان وغیرہ جتنی زیادہ مدت کے لیے کھول سکتی ہوں، کھول کر رکھیں تاکہ تازہ ہوا آ جا سکے۔
حاملہ خواتین اور کووڈ ویکسین: ماہرین کیا کہتے ہیں؟
کووڈ سے بچنے کے لیے کروڑوں مرد اور خواتین دنیا بھر کے مختلف ممالک ، خاص طور پر امریکا، برطانیہ ، جرمنی اور خود ہمارے ملک میں مختلف ٹیکے (ویکسینیں) لگوا چکی ہیں۔ ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ حاملہ خواتین کو بھی بقیہ آبادی کے ساتھ ساتھ ویکسین دی جانی چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو افراد کووڈ بیماری سے بچنے کے لیے ویکسین یعنی ٹیکہ لگواتے ہیں وہ اللہ پر توکل نہیں کرتے ، کیوں کہ اللہ تعالی تو ویکسین کے بغیر بھی انہیں بیماری سے بچا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں میں یہ کہوں گی کہ یقیناً صحت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے اور ہمارا بھروسہ اللہ پر ہی ہے، مگر علاج کروانا سنت نبوی بھی ہے اور توکل کا تقاضا بھی اور جان بچانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض بھی ہے۔ جیسا کہ ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مشہور حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مومن کو پہلے، اونٹ کو باندھناچاہیے اور اس کے بعداللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔بہ حیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اچھی یا بری تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس لیے یہ بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری آزمائش کے لیے یا ہمیں غفلت کی نیند سے جگانے کے لیے بھیجی ہو یا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی اور مصلحت ہو ۔ آپ کو پتا ہو گا کہ اب تک دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اکثر تو اللہ کے فضل سے صحت یاب ہو گئے ہیں مگر لاکھوں لوگ اپنی جان کھو بیٹھے ہیں۔جن کی جان بچ گئی ہے ان میں سے بھی کئی افراد پر اس موذی بیماری کے اثرات کئی مہینے تک باقی رہتے ہیں۔ ظاہر ہے ہر جان قیمتی ہے اور صحت بھی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے کہ ہم اپنی، اپنے بچوں (خواہ وہ ابھی شکم مادر میں ہی ہوں) بلکہ ہر انسان کی جان بچانے کے لیے اپنی ہر ممکن تدبیر کریں۔
ماہرین کی آرا
ویکسی نیشن اور امیونائزیشن کی مشترکہ کمیٹی(جے سی وی آئی) ماہرین کا ایک آزاد مشاورتی ادارہ ہے جو برطانیہ کی وزارت صحت کو مختلف ٹیکوں کے محفوظ ہونے کے بارے میں ماہرانہ مشورہ دیتی ہے۔ اس ادارے کا ٹیکے بنانے والی کسی کمپنی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ اس کی تازہ ترین سفارش جو چودہ جون 2021کو شائع ہوئی ہے، یہ ہے: حاملہ خواتین کو بھی باقی لوگوں کے ساتھ کووڈ 19 سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے کی دعوت دی جانی چاہیے۔
حکومت برطانیہ کی سرکاری ویب سایٹ:تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین پر، جنھوں نے فائزر اور موڈرنا کے ٹیکے لگوائے تھے، ان ٹیکوں کا کوئی برا اثر نہیں پڑا ۔ اس لیے بہتر ہے کہ حاملہ خواتین یہی ٹیکے لگوائیں۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان ٹیکوں کا آپ کے ماں بننے کی صلاحیت پر کوئی اثرپڑتا ہے۔
رائل کالج آف گائناکالوجسٹس(آر سی او جی) پوری دنیا میں بانوے سالوں سے خواتین کی صحت کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے۔
اس کا خیال ہے کہ ویکسین میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو حاملہ خواتین یا ان کے پیٹ میں موجود بچے کے لیے نقصان دہ ہو۔ مگر ہر حاملہ خاتون کو اپنی مستند ڈاکٹر یا زچگی کی ماہر (گائنا کالوجسٹ) سے انفرادی طور پر مشورہ لینا چاہیے کہ ان کی دوسری بیماریوں (مثال کے طور پر ذیابیطس ، زیادہ وزن، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ) کی موجودگی میں ان کے لیے کووڈ و یکسینیشن کے فوائد اور خطرات کیا ہوں گے۔‘‘
ڈاکٹر محمد رضوان جو مالیکولربایولوجی اور جینٹک انجینئرنگ کے ملکی و غیرملکی اداروں سے وابستہ رہنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں کہتے ہیں:
’’ابتداء ً جب کووڈ ویکسین کو لانچ کیا گیا تھا، اس وقت حاملہ خواتین پر اس کے تجربات نہیں ہوپائے تھے۔ لیکن بعد میں بہ تدریج بہت سارے تجربات حاملہ خواتین پر کیے گئے اور اب اس کا ڈاٹا آچکا ہے اور یہ ڈاٹا محفوظ ہے کہ حاملہ خواتین کے لیے ویکسین بالکل محفوظ ہے بالکل ویسے ہی جیسے دیگر افراد کے لیے محفوظ ہے۔ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے بھی یہ ویکسین محفوظ ہے۔ ویکسین لینے سے وضع حمل (مس کریج) وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کا بھی ڈاٹا آچکا ہے۔ سینٹر فار ڈزیزکنٹرول کا بھی ہے اور انڈین کاؤنسل فار میڈیکل ریسرچ کا بھی ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا بھی ہے اور دیگر اداروں کا بھی ہے، جو اس میدان میں کام کرتے ہیں۔ یہ پورا ڈاٹا بتاتا ہے کہ کووڈ ویکسین حاملہ خواتین کے لیے بالکل محفوظ ہے۔
اس موضوع پر ہم نے کئی ماہرِ امراض نسواں سے بھی بات کی۔ شہر آکولہ کی معروف اور کامیاب گائناکولوجسٹ ڈاکٹر واجدہ جے پوری جو ضلع کی گائناکولوجسٹس سوسائٹی کی صدر بھی ہیں حاملہ خواتین اور بچے دونوں کے لیے محفوظ مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
’’کووڈ ویکسین ماں اور بچے دونوں کے لیے محفوظ ہے۔ جہاں تک مرض سے بچانے کا سوال ہے تو وہ صد فیصد تو نہیں کہا جاسکتا البتہ اتنا یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انفیکشن کی صورت میں مرض کی شدت اس قدر نہیں ہوگی جس قدر دوسرے مریضوں میں ہوسکتی ہے ا ور موت کا سبب بن جائے۔‘‘
یہ پوچھے جانے پر کہ پھر اس سلسلہ میں شبہات کیوں ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ ویکسین کے بارے میں ہمیشہ ہمارے سماج میں شبہات رہے ہیں۔ اس کی وجہ ویکسین نہیں بلکہ کم علمی اور ناواقفیت ہے اور یہ خاص طور پر مسلم سماج میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ وہ اکثر چیزوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اس موضوع پر ہم نے بزرگ ماہر امراض نسواں ڈاکٹر شالینی گپتا سے بھی بات کی جو آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ AIIMSسے مدت تک وابستہ رہیں اور ہمدرد یونیورسٹی کے مجیدیہ ہاسپٹل میں بہ طور سینئر کنسلٹنٹ کام کرتی رہیں اور اب انھوں نے پریکٹس چھوڑ رکھی ہے صرف اپنے گھر پر ہی کچھ خاص مریضوں کو دیکھتی ہیں عمر کے اعتبار سے وہ اسی سال سے زیادہ ہیں۔ وہ بھی اس ویکسین کو حاملہ خواتین اور بچے دونوں کے لیے محفوظ مانتی ہیں۔ البتہ اس کی مخالفت کرنے والوں کو بھی نظریاتی طور پر درست مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’انگریزی طریقۂ علاج کے علاوہ دیگر طریقوں میں ویکسین کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ نہ ہومیوپیتھ میں، نہ آیورویدا میں اور نہ یونانی میں۔ بلکہ وہ انسانی جسم میں مصنوعی مدافعت کو داخل کرنے ہی کے خلاف ہیں۔ ایسے میں نیچروپیتھ، ہومیوپیتھ، یونانی اور دیگر لوگ مخالفت تو کریں گے ہی۔ ‘‘
وہ کہتی ہیں:’’دوسری طرف انگریزی طریقۂ علاج ریسرچ، تحقیق، تجزیے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج اور اعداد و شمار پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے لمبی تحقیقات ہوتی ہیں اور نتائج و اثرات کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے، پھر جاکر کسی تھیوری کو عملاً لانچ کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔‘‘
کورونا وائرس کیونکہ حاملہ خواتین میں بہت ساری پریشانیوں کا باعث ہے۔ حمل کے دوران خواتین کو ویسے بھی کئی خطرات لاحق ہوتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ان کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں۔ ملک میں دستیاب تمام ٹیکوں کو عالمی ادارہ صحت نے منظور کیا ہے۔اس لیے افواہوں پر توجہ دیئے بغیر یہ ٹیکے لگوانے چاہئیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق زیادہ تر ویکسین (ٹیکے) 50 فیصد سے زیادہ موثر ہیں۔ اگر کوئی ویکسین صرف 50 فیصد بھی موثر ہے تو کوویڈ سے کم از کم 50 فیصد تحفظ تو ملے گا۔ ایسی صورت میں ، جب کہ حاملہ خواتین کو پہلے ہی اور خطرات لاحق ہوتے ہیں تو یہ ٹیکے لگوانے سے انکار کر کے، مزید خطرہ مول نہیں لینا چاہئے۔ کووڈ سے بچنے کے لیے ٹیکے لگوا لینے کے بعد بھی حفاظتی لباس اور احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔
ویڈیو۔ کووڈ ویکسینیشن: غلط فہمی اور سازشیں
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/802/
https://hijabislami.in/7668/