رشتے ناطے زندگی کی تپتی دھوپ میں راحت دینے والا سائبان ہیں۔ ان سے ہمیں پیار و محبت بھی ملتا ہے اور زندگی گزارنے کے لیے ضروری سہولیات اور تعاون بھی۔ رشتے انسانی زندگی کی ڈھال بھی ہیں جو سماجی ومعاشرتی زندگی میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف ہمارا بچاؤ کرتے ہیں، اور جذباتی زندگی میں ایک بڑا سہارا بھی جو مشکل حالات اور خراب وقتوں میں ہمیں جینے کا حوصلہ دیتے ہیں اور حالات کے مقابلے کے لیے طاقت فراہم کرتے ہیں۔ رشتوں ناطوں کا انسانی زندگی کی تعمیر اور فرد کی مادی و روحانی شخصیت کی تعمیر میں غیر معمولی رول ہوتا ہے۔
رشتوں کی اہمیت کو سمجھنا چاہیں تو آنکھ بند کرکے تصور کریں کہ ماں، باپ، بھائی بہن، پھوپھی، خالہ اور چچا چچی یا خاندان کے وہ دیگر افراد جن کے محبت و پیار کے سائے تلے ہم پلے بڑھے ہیں، انہیں اپنی زندگی سے الگ کرکے دیکھیں، ہم لرز جائیں گے اور محسوس کریں گے کہ ان کے بغیر تو ہمارا آج کا وجود ہی سرے سے ناممکن تھا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان رشتوں کی قدر کرنے اور ان کا احترام کرنے کی تلقین کی ہے اور رشتوں کو جوڑنے اور مضبوط بنائے رکھنے کو دین کا حصہ بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن میں ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ [13-الرعد:21]
ترجمہ : ”اور جن (رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے رہتے اور بُرے حساب سے خوف رکھتے ہیں۔
ترجمہ : ”(اے منافقو !) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان (کے کانوں) کو بہرا اور (ان کی) آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔“(محمد:22]
ترجمہ : ” جو اللہ کےساتھ مضبوط عہدکرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کو (یعنی رشتہ قرابت) جوڑے رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد پیدا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔“(البقرۃ:26)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم ایک دوسرے سے تعلقات منقطع نہ کرو،نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو (پیٹھ دکھاؤ)نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو،نہ آپس میں حسد کرو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤاور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھے ۔(صحیح بخاری:کتاب الادب،صحیح مسلم:کتاب البر)
ایک دوسری حدیث میں ہے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا’کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے (مسلمان)بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع رکھے،دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اس سے اور وہ اس سے منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۔(صحیح بخاری :کتاب الادب، صحیح مسلم: کتاب البر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
ترجمہ : ”اللہ کے نزدیک سب سے بُرا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔“ [صحيح الجامع الصغير : 166]
دوسری جگہ آپؐ نے فرمایا:
ترجمہ:”جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے رشتے داروں کا خیال رکھنا چاہیے۔“ (بخاری:6138)
صلہ رحمی یا رشتوں کے احترام اور ادائیگئ حقوق کے بے شمار دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں۔ دنیاوی فوائد تو ہمارے سانے ہیں ہی مگر حضور پاکؐ نے تاکید کے ساتھ آگاہ کیا کہ:
من أحب أن يبسط له فى رزقه، وينسأ له فى أثره، فليصل رحمه۔
ترجمہ:’’جو چاہتا ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی ہو اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا چاہیے۔‘‘(بخاری:5986)
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! کوئی ایسا عمل مجھے بتایئے کہ اس کے ذریعہ جنت حاصل کر لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :وتصل الرحم ”اللہ کی خالص بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو۔“ [البخاري 5983 ]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ترجمہ: ”رشتہ عرش الٰہی سے آویزاں ہے، وہ پکار پکار کر کہتا ہے جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑ دیا، اللہ اسے توڑ دے۔“ (مسلم:2555)
اور دیکھئے کہ حضور پاکٔ نے کتنی بڑی تنبیہ فرمائی ہے کہ:
لا يدخل الجنة قاطع رحم۔ [مسلم 2556]
”جنت میں رشتہ توڑنے اور کاٹنے والا داخل نہیں ہوگا۔“
ہمارے سماج میں اکثر لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ تو رشتہ داروں کے ساتھ اچھا معاملہ کرتے ہیں مگر وہ لوگ اس کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں لہٰذا اچھا سلوک کرنے کا کیا فائدہ؟ اور پھر وہ رشتہ داروں سے کٹنے کے لیے اسے جواز بناتے ہیں۔ ایسے میں اللہ کے رسول ﷺ نے واضح کردیا کہ رشتوں کو جوڑنے کا مطلب کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
ترجمہ:”صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ اصل میں صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تووہ اسے جوڑے۔“ (بخاری:5991)
ایک مرتبہ حضورؐ نے جنت میں جانے کا ایک چار نکاتی فارمولہ بتایا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’سلام کو پھیلاؤ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو اور ایسے وقت میں نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوں (تہجد مراد ہے) تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘
ویڈیو دیکھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں!
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/5874/
https://hijabislami.in/7309/
https://hijabislami.in/7369/