نظامِ زکوٰۃ کا مقصد
زکوٰۃ کا نظام دراصل مومن کے دل سے حبِ دنیا اور اس جڑ سے پیدا ہونے والے سارے جھاڑ جھنکار صاف کرکے خالص خدا کی محبت پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بندئہ مومن محض زکوٰۃ ادا کرنے ہی پر قناعت نہ کرے بلکہ زکوٰۃ کی اس روح کو جذب کرنے کی کوشش کرے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے، اس کو اسی کی راہ میں قربان کرکے ہم اس کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں ۔ زکوٰۃ کی اس روح اور مقصد کو جذب کیے بغیر کوئی بندہ خدا کے حقوق پہچاننے اور ادا کرنے میں حساس اور فراخدست نہیں ہوسکتا ہے۔ زکوٰۃ کا نظام دراصل پورے اسلامی سماج کو ایک طرف بھوک اور تنگ دستی سے بچاتا ہے تاکہ لوگ فقر و فاقہ کے وبال سے بچ کر سکون آرام سے خلافتِ ارضی کی نعمت سے بہرہ ور ہوسکیں۔ دوسری طرف زکوٰۃ کا نظام سماج کو بخل، تنگ دلی، خود غرضی، بغض، حسد اور استحصال جیسے رکیک جذبات سے پاک کرکے اس میں محبت، ایثار، احسان، خلوص، خیرخواہی، تعاون، مساوات اور وقت کے اعلیٰ اور پاکیزہ جذبات پیدا کرتا اور پروان چڑھاتا ہے۔
زکوٰۃ کی عظمت واہمیت
اسلام میں زکوٰۃکی غیر معمولی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں کم از کم بتیس مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ساتھ ذکر کیا گیاہے، اور ایمان کے بعد اولین مطالبہ نماز اور زکوٰۃ ہی کا ہے۔ یعنی جس طرح نماز فرمانبرداری کا سرچشمہ ہے اسی طرح زکوٰۃ اسی فرمانبرداری کا اولین مظہر ہے یعنی اگر تم نماز سے فرمانبرداری کے دائرے میں آتے ہو تو اس کے لیے پہلی شرط ہوگی کہ تمہارا مال تمہارے پاس امانت ہے جس کو اس کی راہ میں لٹادو۔
اسلام دراصل خدا اور بندوں کے حقوق ہی سے عبارت ہے، اسی لیے قرآن نے نماز اور زکوٰۃ کو اسلام کی پہچان اور دائرئہ اسلام میں داخل ہونے کی شہادت قرار دیا ہے۔ سورئہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے برأت اور بیزاری کا اظہار فرمانے کے بعد مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ اگر یہ کفر و شرک سے توبہ کرکے نماز اور زکوٰۃ پر کاربند ہوجائیں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور اسلامی سوسائٹی میں ان کا وہی مقام ہے جو دوسرے مسلمانوںکا ہے۔
’’پھر اگر یہ (کفر وشرک سے) توبہ کرلیں اور نماز قائم کریںاور زکوٰۃ دیں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘
(توبہ: ۱۱)
یہ آیت بتاتی ہے کہ نماز اور زکوٰۃ ایمان و اسلام کی واضح علامت اور قطعی شہادت ہے، اسی لیے قرآن پاک نے زکوٰۃ نہ دینا مشرکوں کا وصف اور عمل قرار دیا ہے اور ایسے لوگوں کو آخرت کا منکر اور ایمان سے محروم بتایا ہے۔
’’اور تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور یہی لوگ ہیں جو آخرت کے منکر ہیں۔‘‘
(فصلت: ۶-۷)
خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورِ خلافت میں جب کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا، تو آپؓ نے ان کو اسلام سے خروج اور ارتداد کے ہم معنی سمجھا اور اعلان فرمایا کہ:
’’یہ لوگ دورِ رسالت میں جو زکوٰۃ دیتے تھے اگر اس میں سے بکری کا ایک بچہ بھی روکیں گے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے صدیقؓ اکبر سے فرمایا: ’’آپؓ ان لوگوں سے بھلا کیوںکر جہاد کرسکتے ہیں، جو کلمہ کے قائل ہیں۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہہ دے، تو اس کا جان و مال میری طرف سے محفوظ و مامون ہوگیا۔‘‘
حضرت ابوبکرصدیقؓ نے یہ سن کر اپنے آہنی عزم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
’’خدا کی قسم! جو لوگ نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کریں گے میں ان کے خلاف لازماً جنگ کروں گا۔‘‘
(بخاری، مسلم)
نماز اور زکوٰۃ دین کے دو بنیادی اور لازم و ملزوم ارکان ہیں، ان کا انکار یا ان میں تفریق کرنا دراصل خدا کے دین سے انحراف اور ارتداد ہے اور مومن کا کام یہی ہے کہ وہ مرتد کے خلاف جہاد کرے۔ حضرت عبداللہ ابنِ مسعودؓ کا ارشاد ہے:
’’ہم کو نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے اور جو شخص زکوٰۃ نہ دے، اس کی نماز بھی نہیں ہے۔‘‘
(طبرانی)
قرآن پاک میں ان لوگوں کو ہدایت سے محروم قرار دیا ہے جو زکوٰۃ سے غافل ہیں۔ زکوٰۃ کی اسی غیر معمولی اہمیت اور عظمت کے پیشِ نظر قرآن میں بیاسی مقامات پر اس کا تاکیدا حکم دیا گیا ہے۔ نیز قرآن و سنت میں اس کے زبردست دینی اور دنیاوی فوائد بتاکر طرح طرح سے ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن میں ایک جگہ زکوٰۃ کا عظیم اجر و ثواب ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’جو لوگ اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں، اس طرح جس عمل کو وہ چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔ وہ فراخ دست اور علیم ہے۔‘‘
(البقرۃ: ۲۶۱)
قرآن کی صراحت ہے کہ قلوب کو پاک کرنے، نیکیوں کی راہ پر بڑھنے، حکمت کی دولت سے مالا مال ہونے، خدا کی خوشنودی، مغفرت اور رحمت حاصل کرنے، جہنم کی آگ سے بچنے اور آخرت میں ابدی سکون اور خدا کا قرب پانے والے ہی وہ لوگ ہیں جو خوش دلی اور پابندی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
’’اے نبی!(ﷺ) آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کیجیے اور نیکی کی راہ میں انہیں آگے بڑھائیے۔‘‘ (توبہ: ۱۰۳)
ایک اور جگہ فرمایا گیا:
’’اور جہنم کی آگ سے وہ شخص دور رکھا جائے گا جو اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہے جو دوسروں کو محض اس لیے اپنا مال دیتا ہے کہ (اس کا دل بخل و حرص اور حبِ دنیا سے) پاک ہوجائے۔‘‘
زکوٰۃ سے غفلت کا ہولناک انجام
زکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے قرآنِ حکیم نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو انتہائی دردناک سزاؤں اور لرزہ خیز عذاب کی خبر دے کر متنبہ کیا ہے کہ وہ فنا ہونے والے مال ومتاع کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں، اور اس عذاب سے بچیں جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں:
’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور خدا کی راہ میں اس کو خرچ نہیں کرتے، تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنادو۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی، اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کررکھا تھا۔ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو متنبہ کرنے کے لیے آخرت کے لرزہ خیز عذاب کی تصویر اس طرح کھینچی ہے:
’’جس شخص کو خدا نے مال و دولت سے نوازا، پھر اس شخص نے اس مال کی زکوٰۃ نہیں دی، تو اس مال کو قیامت کے روز انتہائی زہریلے سانپ کی شکل دے دی جائے گی۔ زہر کی شدت کے باعث اس کا سر گنجا ہوگا اور اس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ قیامت کے روز وہ سانپ اس (زرپرست بخیل) کے گلے میں لپٹ جائے گا۔ اور اس کے دونوں جبڑوں میں اپنے زہریلے دانت گاڑ کر کہے گا، میں تیرا مال ہوں، میں تیرا جمع کیا ہوا خزانہ ہوں۔‘‘
اور پھر آپ ﷺ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے: ’’جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے مال و دولت سے نوازا ہے اور وہ بخل سے کام لیتے ہیں، اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخل اور زرپرستی ان کے حق میں بہتر ہے، یہ روش ان کے لیے نہایت ہی بری ہے، وہ اپنی کنجوسی سے جو کچھ جمع کررہے ہیں، وہی قیامت کے روز ان کے گلے میں طوق بناکر پہنایا جائے گا۔‘‘ (آل عمران: ۱۸۰)
نیز آپءﷺ نے صحابہ کرامؓ کو خطاب کرتے ہوئے زکوٰۃ سے غفلت کے عبرتناک انجام سے بچنے کی تلقین فرمائی:
’’تم میں سے کوئی شخص قیامت کے روز اس حال میں میرے پاس نہ آئے کہ اس کی بکری اس کی گردن پر لدی ہوئی ہو، اور مجھے حمایت کے لیے پکارے اور میں اس سے کہوں کہ میں آج تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تم کو خدا کے احکام پہنچادیے تھے اور دیکھو اس روز کوئی اپنااونٹ اپنی گردن پر لادے ہوئے میرے پاس نہ آئے کہ وہ مجھے مدد کے لیے پکارے اور میں کہوں کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے توخدا کے احکام تم کو پہنچادیے تھے۔‘‘ (بخاری)
ایک بار نبی اکرم ﷺ نے دو خواتین کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’تم ان کی زکوٰۃ بھی ادا کرتی ہو یا نہیں؟‘‘
خواتین نے کہا: ’’نہیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’تو کیا تمہیں یہ منظور ہے کہ ان کے بدلے میں تم کو آگ کے کنگن پہنائے جائیں۔‘‘
خواتین نے کہا: ’’ہرگز نہیں۔‘‘
تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ان کی زکوٰۃ دیا کرو۔‘‘ (جامع ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا:
’’لوگو! حرص اور لالچ سے دور رہو، تم سے پہلے جو لوگ تباہ و برباد ہوئے، اسی حرص اور لالچ کی بدولت ہوئے۔حرص نے ان میں بخل اور تنگ دلی پیدا کی۔ اور وہ بخیل اور زرپرست ہوگئے اور اسی نے ان کو قطع رحم پر ابھارا اور انھوں نے قطع رحم کا جرم کیا اور اسی نے ان کو بدکاریوں پر ابھارا اور وہ بدکاری پر اتر آئے۔‘‘
(ابوداؤد)
قرآن و سنت کی ان تنبیہات ہی کا اثر تھا کہ صحابہ کرامؓ زکوٰۃ و صدقات کا انتہائی اہتمام فرماتے، اور بعض کے احساسات تو اس معاملے میں اتنے شدید تھے کہ وہ ضرورت سے زائد ایک پیسہ بھی اپنے پاس رکھنا حرام سمجھتے تھے۔ حضرت ابوذرؓ کی تو یہ مستقل عادت ہوگئی تھی کہ جہاں کچھ لوگوں کا ہجوم دیکھتے، ان کو زکوٰۃ کی طرف ضرور متوجہ کرتے۔