’’اس نے دس سال پہلے میری کلاس میٹ سے شادی کی تھی اور سات سال پہلے وہ ہمارے گھر ایک جگہ برائے آفس کرائے پر لینے آیا تھا۔ والد صاحب نے ہامی بھی بھر لی تھی کیوں کہ میرے والداور اس کے والد دونو ںایک دوسرے کو جانتے تھے۔ در اصل پہلے کبھی وہ ہمارے پڑوسی رہ چکے تھے۔ ‘‘
ایک نوجوان خاتون نے اپنے خط کا آغازاسی طرح کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اس نے لکھا ہے:
’’جب اس شخص نے میرے والد سے جگہ کرائے پر لی تھی، مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ میری کلاس میٹ کا شوہر ہے۔ اس بات کاتو مجھے ایک سال بعد اس وقت پتہ چلا جب وہ خود ایک خلیجی ملک کے سفر پر گیا ہوا تھا اور اس کی بیوی کرایہ ادا کرنے ہمارے گھر آئی تھی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو میری دوست کا شوہر ہے۔ لیکن اس وقت تک اس شخص یعنی میری دوست کے شوہرکے تعلق سے میرے اندر کسی قسم کے کوئی جذبات یا کسی قسم کا کوئی احساس نہیں تھا اور نہ ہی اس شخص نے مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔
یہ شخص اکثر اپنے کام کے سلسلے میں خلیجی ملک کے سفر پر ہی رہتا تھا۔ ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں اس نے میرے والد اور والدہ کی موجودگی میںملازمت کی غرض سے میرے سفر کی تجویز رکھی۔ اس نے بغیر کوئی رقم لیے اپنی طرف سے میری پوری مدد کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کی حتی کہ سفر کا کرایہ اور ٹکٹ وغیرہ بھی اپنی طرف سے اداکرنے کا وعدہ کر لیا۔
خلیجی ملک کا سفرکرنے کے خیال سے میں بہت خوش تھی اور اس تعلق سے کافی جذباتی ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خاص طور سے والد کے ریٹائر ہوجانے کے بعد سے ہماری معاشی حالت جو خراب ہوگئی تھی وہ بہتر ہوجائے گی۔ حالانکہ میری والدہ نے شروع میں میرے سفر کی مخالفت کی تھی کیوں کہ وہ میرے تنہا سفر کرنے سے ڈر رہی تھیں، لیکن میں نے انھیں یقین دلا دیا کہ اللہ نے چاہا تو میں اپنی حفاظت خود کرلوں گی۔
اس شخص نے میرے والدین کی موجودگی میں ہی مجھ سے میرا فون نمبربھی لیا۔ میں نے اپنا پاسپورٹ بنوایا اور سفر کے کاغذات تیار کراکر اس کو دے دیے جنھیں وہ لے کر سفر پر چلا گیا۔
سفر کے اس خیال سے میں نے اس وقت اس لیے بھی اتفاق کیا تھا کیوں کہ اس نے ابھی تک مجھ سے اپنی محبت کے تعلق سے کوئی بات نہیں کی تھی۔میں بھی اسے ایک بھائی کی طرح سمجھ رہی تھی۔اس کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ وہ ایک مہذب اور بااخلاق آدمی معلوم ہواتھا۔ اس لیے مجھے اس کی طرف سے کسی قسم کا کوئی خوف محسوس نہیں ہوا ۔
گزشتہ سال یہ شخص سفر پر گیا تو اس نے وہاں سے مجھ سے فون پر رابطہ قائم کیا اور کہا کہ اس نے میرے لیے ملازمت تلاش کر لی ہے، لیکن رہائش کا مسئلہ ہے کیوں کہ میں ایک لڑکی ہوں اور لڑکی، لڑکیوں کے ہی ساتھ رہ سکتی ہے۔
ایک روز میں نے دیکھا کہ میرے والد خود ہی مجھے اس کاای میل آئی ڈی دے رہے ہیں۔ انھوںنے مجھ سے کہا کہ میں اس آئی ڈی کو اپنے ’’میسینجر‘‘ کی لسٹ میں شامل کرلوں۔ پھر اسی شام کو والد نے انٹرنیٹ پر ’’میسینجر‘‘ کے ہی توسط سے اس شخص سے بات بھی کی حالانکہ اس وقت میں بھی وہیں موجود تھی لیکن میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی، کیوںکہ میری تربیت الحمد للہ ایک پاک وصاف گھرانے میں ہوئی ہے۔اور کسی اجنبی سے بلا ضرورت بات کرنا میں صحیح نہیں سمجھتی تھی۔
دن اور مہینے گزر گئے۔ ایک روز میں نے میسینجر کھولا تو دیکھا کہ وہ شخص مجھ سے بات کرنے کے لیے آن لائن موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر میسینجر کے توسط سے گفتگو میں اس نے مجھے کام کے سلسلے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اس نے ساری تیاریاں مکمل کرلی ہیںاور جلد ہی واپس آکر مجھے تفصیلات سے آگاہ کرے گا۔
اس کی بیوی کو کسی طرح یہ معلوم ہوگیا کہ اس کے شوہر نے میسینجر پر مجھ سے باتیں کی ہیںتو اس نے مجھے فون کیا اور فون پر ہی ڈانٹنے دھمکانے لگی کہ وہ سب کو بتا دے گی کہ میرے اس کے شوہر سے تعلقات ہیں۔ اس کے بعد اس نے مجھے اور میرے والدین کو گالیاں اور دھمکیاںدینی شروع کردیں ۔
اس معاملے کا علم میرے والد اور والدہ کو ہوا تو ہم لوگ مل کر اس کی بیوی کے پاس گئے۔ اس وقت اس کا شوہر سفر پر گیا ہوا تھا۔ ہم نے اسے یقین دلایا کہ میرے اور اس کے شوہر کے درمیان کسی طرح کے تعلقات نہیں ہیں۔ اس کو یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں اس سے آئندہ کوئی بات نہیں کروں گی اور نہ ہی وہ مجھ سے کوئی بات کرے گا۔لیکن ہم اس کے غصے اور غضب کی آگ کو ٹھنڈ انہیں کرپائے اور نامراد واپس آگئے۔
محبت کا چکر
اس واقعے کے بعد میری کلاس میٹ کے شوہر نے میسینجر پر ہی مجھ سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی۔ شروع میں تو میں نے اس کی بات کاکوئی جواب نہیں دیا ، لیکن وہ مجھے دینی حوالے دے کر ڈراتا رہاکہ ایک مسلمان کسی مسلمان کے سلام کا جواب نہ دے تو اسلام میں اس کو کس نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ وہ بار بار یہی بات دہراتا رہا تو میں نے اس کے سلام کاجواب دے دیا۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے اصرار کیا کہ ہمارا یہ تعلق برقرار رہنا چاہیے اور کہنے لگا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
میں نہیں جانتی کہ اس وقت میری کیا کیفیت تھی۔ محبت کے احساس سے میں چکرا گئی تھی۔ ایک عجیب احساس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ خاص طور سے یہ کیفیت اس لیے بھی ہوئی کہ اس نے شادی کے معاملے پر ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ وہ میرے ہی ساتھ رہے گا ، کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوگا اور اس کی بیوی بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ جو کچھ اس کی بیوی اور میرے درمیان پیش آیا تھا، میں نے اس کو بتایا تو بولا کہ اس نے (اس کی بیوی نے) ایسی حرکت اس لیے کی کہ میں سفر پر تھا لیکن اگر میں گھر پر ہی موجود ہوتا تو اس کے اندر ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔‘‘
اپنا خط مکمل کرتے ہوئے اس نوجوان خاتون نے آخر میں لکھا کہ : ’’ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ لیکن میں اس سخت کشمکش میں مبتلا ہوں کہ آیا اس کا شادی کا پیغام قبول کرکے اپنے خوابوں اور آرزوئوں کی منزل کو پالوں اور اس کے ساتھ محبت کے بندھن میں بندھ کر ایک ہی چھت کے نیچے زندگی گزارنے کا سپنا پورا کرلوں یا اس پیغام کو نامنظور کردوں؟ کہیںاس کی بیوی کی وجہ سے متوقع مشکلات اور دشواریوں کا سامنا نہ کرناپڑے۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت ہے۔‘‘
بہ مشکل کامیاب رہنے والی شادی
میرے خیال میں اس قسم کی شادیاں مشکل سے ہی کامیاب ہوا کرتی ہیں، جس کے درج ذیل اسباب ہیں:
۱۔عقل پر جذبا ت کا غلبہ
آپ کی گفتگو سے میں نے یہ نتیجہ اخد کیا ہے کہ آپ کو اس شخص کے متعلق بہت تھوڑی سی معلومات ہیں۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ آپ عقل سے کام لینے کے بجائے جذبات سے زیادہ کام لے رہی ہیں۔یہ چیز آپ کو ایک تاریک راستے کی طرف لے جارہی ہے۔کیوں کہ کامیاب شادی کی بنیاد یہ ہے کہ مرد اور عورت کے افکارو خیالات ہم آہنگ ہوں، اخلاق، دینی التزام اور معاشرتی، ثقافتی، معاشی نیز عمر کے اعتبار سے دونوں کے درمیان یکسانیت و قربت ہو۔ لیکن آپ دونوں کے درمیان ان تمام چیزوں میں کوئی یکسانیت نظر نہیں آتی، اس لیے کہ آپ خالص جذباتی ہیں اور جذباتی انداز میں ہی یہ سمجھتی ہیں کہ محبت ہی زندگی میں سب کچھ ہے۔ آپ کے خیال میں جس سے آپ محبت کرتی ہیں اسے پانے میں آپ کامیاب ہوگئیں تو دنیا کی سب سے خوش نصیب آپ ہی ہو جائیں گی۔ آپ نے کچھ ہونے سے پہلے ہی یہ ضمانت بھی دے دی ہے کہ آپ کا یہ خوبصورت خیال تادم زیست باقی رہے گا۔ جب کہ زندگی کی رفتار اس کے برعکس کی یقین دہانی کراتی نظرآتی ہے۔ یہ نہ بھولیے کہ دلوں کی ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ انھیں جس طرح چاہتا ہے پلٹ دیتا ہے۔ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کل اس شخص کے تعلق سے آپ کے موجودہ حالات میں کیا تبدیلی آنے والی ہے۔
۲۔ بے شمار مصائب کا اندیشہ
اللہ تعالی نے تعدد ازواج، یعنی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ مجھے اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ شادی ہوجانے کے بعد آپ کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ محض ایک سے زیادہ بیوی ہونے کی وجہ سے آپ کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس کی وجہ اس شخص کے حالات بنیں گے جس سے آپ شادی کرنا چاہتی ہیں۔اس کی یہی بیوی ہے جس سے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو کیا کیا سننا پڑا، حالانکہ ابھی تو آپ کی اس کے شوہر سے شادی بھی نہیں ہوئی۔آپ نے خود سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ ابھی، جب کہ آپ کی شادی بھی نہیں ہوئی، اس عورت سے اتنی تکلیف اور اذیت کا سامنا آپ کو کرنا پڑا ہے۔ شادی ہو جانے کی صورت میں آپ اس عورت سے کیا اور کیسے سلوک کی توقع کرتی ہیں؟!!
۳۔مرد کے پاس وقت ہے کہاں؟
جس شخص کا آپ ذکر کررہی ہیں اس کے بارے میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ بہت مصروف اوراپنے کاروبارکے سلسلے میں زیادہ تر سفر پر رہتا ہے۔اس کے پاس آپ کو دینے کے لیے بھی وقت نہیں ہوگا۔ یہی چیز اس کی پہلی بیوی اور بچوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کی مصروفیت اور کام کی نوعیت وکثرت کی وجہ سے خواہی نہ خواہی اس کو آپ سے دور جانا ہی پڑے گا۔ایک بات یہ بھی ہے کہ اس کے بچے بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں۔ یعنی زندگی کے اس مرحلے میں ہیں جہاں ان کے مسائل پر زیادہ توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس کی عمر چالیس سال سے متجاوز ہے ۔ عمر کی زیادتی کی وجہ سے اس کی جسمانی قوت بھی زائل ہونی شروع ہوگئی ہے۔ جوانی کا گراف گرنا شروع ہوگیا ہے۔اس لیے وہ آپ کے پاس صرف ایک مہمان کی طرح آیا کرے گا۔ پھر آپ کو یہ محسوس ہونے لگے گا کہ آپ کی جوش مارتی محبت کمزور اور زوال سے دوچار ہونا شروع ہوگئی ہے۔
۴۔شادی راہ چلتا کھیل نہیں
ازدواجی زندگی کوئی کھیل اور تفریح یا کوئی خیال نہیں ہے جو راہ چلتے دماغ میں آگیا ہو، بلکہ یہ زندگی کا سوچا سمجھا منصوبہ اور مستقبل کا جانچا پرکھا فیصلہ ہے۔ اس لیے شادی کے متعلق سوچتے وقت ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں حکمت ودانش مندی اور واقعیت پسندی کے ساتھ کوئی فیصلہ لیں۔ مذکورہ سہیلی کاشوہر آپ کے ساتھ زیادہ دن تک لوگوں کی نظروں سے چھپ کر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ شادی کا معاملہ زیادہ عرصے تک لوگوں کی نظروں سے مخفی نہیں رہ سکتا۔ ایک نہ ایک دن لازماً لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے آپ سے بھی شادی کرلی ہے۔
۵۔ دین سے کمزور وابستگی
بعض مردوں سے ایسی حرکات سر زد ہوتی ہیں جو میرے خیال میں ایک دین دار مرد کے بالکل شایان شان نہیں ہیں۔ خاص طور سے ایسی حرکات جن کا ذکر آپ نے اپنے خط میں بھی کیا ہے کہ دین دار ہوتے ہوئے بھی اس نے گھر سے باہر کسی مقام پر آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ وہاں بیٹھ کر آپ سے شادی کے بارے میں بات کرسکے۔ متوقع یہی ہے کہ اس کی باتیں اس طرح کی ہوں گی کہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے اور آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن اصل میں یہ اس کی طرف سے برائی کی تمہید اور آغاز ہوگا۔ اس طرح کی باتیں کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے۔
اس کے جواب میں اگر آپ مجھ سے یہ کہیں گی کہ اس نے گھر سے باہر بات کرنے کے لیے اس لیے بلایا تھا کہ میرے گھر والوں سے دور رہ کر میری مرضی معلوم کرے تو اس صورت میں بھی اس کا آپ کو گھر سے باہر بلانا درست نہیں ہے، جب کہ آپ کے والدین کی طرف سے اسے آپ کے گھر کے اندر آنے کی اجازت ہے۔ ایک دین دار آدمی ہوتے ہوئے بھی اس نے یہ قابل مواخذہ حرکتیں کی ہیں:آپ سے بار بار انٹر نیٹ کے ذریعے باتیں کرتا رہا۔ آپ کا قرب حاصل کرنے کی غرض سے آپ کے لیے کام تلاش کیا۔ پھر مناسب موقع ومحل دیکھ کر اپنے ساتھ رکھنے کی غرض سے آپ کے لیے یہ دلیل بھی بیان کر دی کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے رہائش کا مسئلہ پیدا ہوگا ۔
۶۔ عاشق کی نظر حقائق پر نہیں ہوتی
عشق میں مبتلا شخص کی نظریں حقائق کو نہیں دیکھ پاتیں۔ وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو ان آنکھوں سے دیکھتا ہے جن پر پردہ پڑا ہوا رہتا ہے۔ اسی لیے فقہا، مصلحین اور اہل تربیت نے عشق کے مسئلے کی طرف توجہ دی ہے اور یہ کہا ہے کہ عشق ایک قسم کا مرض ہے۔ اپنی کتابوں میں عشق اور عشّاق کے متعلق لکھا بھی ہے۔ اسی قسم کی ایک کتاب امام قیم الجوزیؓ کی ’’الداء والدواء‘‘ (بیماری اور علاج) کے نام سے ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مرض عشق کے علاج پر توجہ دی ہے۔
آخر میں آپ کو یہ یقین دلا دوں کہ میں آپ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں لے رہا ہوں۔ آپ کو خود اپنے متعلق فیصلہ لینا ہے۔ میں صرف مسئلے کے تعلق سے غوروفکر میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔ اور مشورہ بھی میں آپ کو اس لیے دے رہاہوں کیوں کہ میری حیثیت اس مسئلے کے تعلق سے غیر جانب دار کی ہے اور مسئلے کے کسی بھی فریق سے میرا تعلق نہیں ہے۔اس لیے امید ہے کہ میرے مشورے جذباتیت اور وقتی جوش سے خالی اور واقعیت پسندی پر مبنی ہوں گے۔
اس مسئلے پر ان وقتی جذبات وتاثرات کے دائرے سے باہر نکل کر سوچیے۔ کیوں کہ یہ جذبات وتاثرات جب انسان کی عقل پر غالب آجاتے ہیں تو اسے غلط فیصلہ لینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اس اصول کی روشنی میں اپنے معاملات پر غور کرنا چاہیے کہ ’’آغاز کے مطابق ہی انجام ہوتا ہے۔‘‘
آخری بات کے طور پر میں کہوں گا کہ فیصلہ آپ ہی کے ہاتھ میں ہے، صرف آپ ہی اپنے متعلق کوئی فیصلہ کر سکتی ہیں کیوں کہ اپنی زندگی کی مالک آپ خود ہیں کوئی اور نہیں ہے۔ میں یہ مشورہ بھی دوں گا کہ نماز استخارہ پڑھ کر اپنے رب سے مدد طلب کیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے۔