روز روز ہماری کلاس میں چوریاں ہورہی ہیں۔ ہم نے ہر طرح کی نگرانی کی۔ ٹیچر اور پرنسپل صاحب کو بھی بتایا مگر بے سود۔ کلاس مانیٹر خاور نے کہا۔ کلاس کا معاملہ ہے اور ہم اسے حل کرسکتے ہیں کیوان نے کہا۔ کیوان اور خاور کے علاوہ اس گروپ میں ماجد، محمد اور برہان بھی شامل تھے۔
’’سر! چوریاں کلاس میں بریک کے وقت ہوتی ہیں ہم بریک کے وقت نگرانی کرتے ہیں تو چوریاں نہیں ہوتیں۔ کیوں کہ چور کو معلوم ہوتا ہے کہ نگرانی ہورہی ہے۔‘‘ خاور نے سرنواز کو تفصیل بتائی۔
’’تم صحیح کہتے ہو خاور! اس چور کو میں پکڑوں گا۔‘‘ سرنواز نے کہا۔ اگلے دن سرنواز کلاس میں آئے اورکہنے لگے۔ ’’تم سب کی چیزیں پوری ہیں۔‘‘
سب نے ہاں میں جواب دیا۔ سر نواز نے کلاس کا جواب سنا اور چلے گئے۔ اگلے دن گلاس میں شور مچ گیا کہ خاور کی جیومیٹری گم ہے اور یہ بات سرنواز تک پہنچ گئی۔ سرنواز کلاس میں آئے اور حیرت کا اظہار کرکے چلے گئے۔اس دن چھٹی سے پہلے سرنواز نے خاور کو بلایا اور کہنے لگے: ’’مجھے معلوم ہوچکا ہے کہ چور کون ہے؟ چور ایک نشانی چھوڑ گیا ہے۔ چور کون ہے؟ تم؟ ’’سر میں‘‘ یہ نہیں ہوسکتا۔ چوری بریک میں نہیں ہوئی بلکہ یہ صبح اسمبلی کے وقت ہوئی اور اسمبلی کے وقت مانیٹر کے سوا کوئی نہیں جاسکتا۔ سرنواز نے کہا۔ دیکھو خاور میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ نہ ہی یہ بات پرنسپل صاحب یا کسی اور کو بتاؤں گا اور میں تمہارا جیومٹری بکس بھی حاصل کرچکا ہوں۔ لڑکے کو پتہ چلے گی مگر یہ بتاؤ کہ تم چوری کیوں کرنے لگے؟‘‘ سرنواز نے پریقین لہجے میں کہا۔
خاور سرجھکائے کھڑا تھا اور لڑکھڑاتی زبان سے بولا: ’’جب میں کیوان کو دیکھتا ہوں جو اسکول میں روزانہ نئی نئی چیزیں لاتا ہے۔ تو مجھے بھی یہ چیزیں حاصل کرنے کا شوق ہوا اور میں نے چیزیںحاصل کرنے کا یہ طریقہ اپنایا سر! پلیز آپ مجھے معاف کردیں۔
’’بیٹا تم نے چیزیں حاصل کرنے کے لیے غلط قدم اٹھایا۔ یہ چیزیں غیر ضروری ہیں۔ اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ مستقبل میں یہ چیزیں تمہارے پاس ہوں۔ اپنی محنت سے حاصل کردہ چیزوں کی جو خوشی ہوتی ہے، وہ چوری کرکے تم حاصل نہیں کرسکتے۔ امید ہے تمہیں میری باتیں سمجھ میں آگئی ہوں گی۔‘‘ سرنواز نے کہا۔
’’جی سر!‘‘ خاور نے کہا اور کلاس سے باہر نکل گیا۔