’’امی میری پنسل ٹوٹ گئی۔ ابھی مجھے ڈھیر سارا ہوم ورک کرنا تھا۔‘‘ ماہم نے اپنا مسئلہ امی کے سامنے پیش کیا۔ ’’ٹھیک ہے میں دوسری پنسل شام کو تمہارے ابو سے منگوادوں گی تب تک تم نبیل کی پنسل لے کر اپنا ہوم ورک مکمل کرلو۔‘‘ امی نے فوراً ہی حل پیش کردیا تو ماہم بھی مسرور ہوگئی۔ ان کی امّی نے ایک نظر دونوں پر ڈالی اور سمجھ گئیں کہ وہ اس مفید چیز کے بارے میں ضرور سوال کریں گے۔ ماہم کی مسکراہٹ بھی ایسا ہی ظاہر کررہی تھی۔ انھوں نے بھی اشارہ کیا کہ وہ کام ختم کرکے پنسل کی کہانی ضرور سنائیں گی۔ حسبِ وعدہ جب وہ نبیل اور ماہم کے پاس آئیں تو ان کا کام مکمل ہوچکا تھا۔
’’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب‘‘ کی یاد دہانی ہر بچے کو کرائی جاتی ہے۔ پڑھنے کے لیے تو کورس کی کتابوں کے علاوہ وہ ڈھیر سارے میگزین، کامکس اور کارٹون ہیں تو پھر لکھنے کے لیے کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے۔ لکھنے کے لیے قلم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر قلم ہاتھ نہیں لگ سکا تو پھر لکھنے کا کام کس طرح ممکن ہوسکے گا؟ ذرا سا دماغ پر زور ڈالنے پر فوراً زبان پر آئے گا پنسل۔ پنسل کیسے بنی اور کس نے بنائی سبھی بچوں کے ذہن میں آنا عین فطری ہے۔ یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے جس کے پس پردہ ایک بچے کی سخت جدوجہد اور محنت کا دخل ہے۔
امریکہ کے ملیسا چوئٹس نامی شہر میں جوزف ڈکسن نامی ایک غریب بچہ رہتا تھا۔ اس کے دوست فرانس پی باڈی کے والد کی دواؤں کی دکان تھی جس پر دونوں دوست بیٹھا کرتے تھے اور بازار کی رونق دیکھ کر خوش ہوتے رہتے تھے۔ ایک دن جوزف نے اپنی دکان میں ایک شخص کو کھرل میں چمکیلا کوئلہ پیستے ہوئے دیکھا۔ یہ چمکیلا کوئلہ گریفائٹ تھا۔ جب جوزف نے گریفائٹ کو کاغذپر رگڑا تو ایک سیاہ لکیر بن گئی۔ جوزف نے فرانس سے کہہ کر تھوڑے سے گریفائٹ کا چورن لے لیا اور گھر پر اس کو چکنی مٹی میں ملا کر بتی کی شکل دی اور اسے دھوپ میں خشک کیا۔ اس کے بعد اس نے بڑھئی سے نلکی نما ڈھانچہ بنوایا اور اس کو درمیان سے چیر کر اس میں بتّی رکھ کر بند کردیا۔ اس کارروائی کے بعد اس نے ایک سرے کو چاقو سے چھیل کر نوکیلا بنایا اور کاغذ پر لکھنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی تو کاغذ پر لکیروں اور حرفوں کا جال بڑے ہی خوبصورت انداز میں پھیل گیا۔ جوزف کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے دنیا کی اولین پنسل ایجاد کرلی تھی۔
جوزف کی اس کامیابی نے اس کے لیے جدوجہد کے راستے کھول دیے۔ اس نے ڈھیر ساری پنسلیں بنائیں اور راتوں کو جاگ کر اسے چولہے کی آنچ پر خشک کیا۔ اپنے کام میں لگے رہنے کی وجہ سے وہ کتابوں سے دور ہوگیا یہی وجہ تھی کہ تعلیم پر توجہ نہ دینے اور کلاس سے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے اس کا نام اسکول سے کاٹ دیا گیا۔ اس کے پاس خاطر خواہ رقم بھی نہیں تھی کہ وہ مزید کچھ کرسکے۔ آخر کار اس نے اینٹوں کے بھٹے پر ملازمت کرلی۔ دن بھر بھٹّے پر ملازمت اور رات کو پنسل بنانے کی جدوجہد۔ اس نے مزید محنت کرکے پگھلے ہوئے موم میں رنگوں کو شامل کرکے پنسلوں کو رنگنا بھی شروع کردیا تاکہ ان کی خوبصورتی دو چند ہوجائے۔ جب بازار میں یہ چیز آئی تو اس کی قیمت ڈیڑھ روپے سے لے کر سوا تین روپے تک رکھی گئی۔ جوزف نے بڑھئی کا کام بھی خود ہی کیا۔ اس نے کئی مشینیں خریدیں اور کام کے لیے مزدور رکھے۔ پانچ مزدوروں کے ساتھ بذاتِ خود وہ بھی دن رات پنسل بنانے کے لیے سخت محنت کرتا۔ لکڑی چھیلنا، بتّی بنانا اور گوند سے چپکانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جوزف نے جب ہنا مارٹن سے شادی کی تو اس نے پنسل کو سجانے میں بھر پور تعاون دیا۔ اپنی بیوی اور کاریگروں کے ساتھ چند ماہ بعد جوزف امریکہ سے جرمنی منتقل ہوگیا جہاں ایرہارڈ فیبر کے عملی تعاون سے اس نے پنسلوں کی فیکٹری قائم کی۔ اسی دوران جب خانہ جنگی کا نقارہ بجا تو فوج نے بھی پنسل کا مطالبہ کیا۔ جوزف نے ایک ایسی مشین بنائی جو ایک منٹ میں ۱۳۲ پنسلوں کے ڈھانچے تیار کرتی تھی۔ جوزف نے پنسل بنانے کے کارخانے سے کافی ترقی کی اور امیروکبیر شخص بن گیا۔ بچوں کو پنسل کا عظیم تحفہ دینے والا جوزف ۷۰ سال کی عمر میں اس عالم فانی سے رخصت ہوگیا۔
پنسل لاطینی زبان پینی گلس سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے چھوٹی دم۔ ابتدا میں یہ لفظ نوکیلے برش کے لیے استعمال ہوتا تھا جبکہ موجودہ زمانے میں یہ لکھنے کے لیے خاص چیز کے معنی میں آتا ہے۔ پنسل بنانے کا کام دو سو سال قبل شروع ہوا تھا۔ جوزف کے علاوہ ایک دوسری روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ تقریباً پانچ سو سال قبل کمبرلینڈ (انگلینڈ) کی ایک کان سے لوگوں نے گریفائٹ کا پتہ لگایا جس سے چند پنسلیں بنائی گئیں اس کے لیے وسیع پیمانے پر گریفائٹ کا استعمال ۱۷۶۰ء میں نیوریمبرگ (جرمنی) کی فیبرس فیملی نے کیا لیکن انھیں زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ ۱۷۶۵ء میں ایم جے کونتے نے گریفائٹ میں چکنی مٹی ملائی اور اس محلول سے پتلی پتلی سلائیاں بنا کر بھٹی میں تپایا۔ انہی سلائیوں سے پنسل بنائی گئی جو بے حد مشہور ہوئی۔ آج بھی اسی طریقے سے پنسل بنائی جاتی ہے۔ جن پنسلوں کو لیڈ پنسل کہا جاتا ہے ان میں لیڈ نہیں ہوتا بلکہ گریفائٹ کا ہی استعمال ہوتا ہے۔ پہلے اسے باریک پیس لیا جاتا ہے پھر اُس میں مٹّی ملا کر آٹے کی طرح گوندھ لیا جاتا ہے۔ ایک مشین کی مدد سے اس محلول سے پتلی پتلی سلائیاں بنالی جاتی ہیں جنھیں بھٹّی میں تپا لیا جاتا ہے تاکہ وہ سخت ہوجائیں۔ ایک سلائی کو دیو دار کی لکڑی کی ایک مخصوص پٹّی میںرکھ کر اُس کے اوپر دوسری پٹّی چپکادی جاتی ہے۔ اب اسے پنسل کے سائز میں کاٹ کر پالش کردیا جاتا ہے۔ پنسل کی سلائی جتنی نرم ہوگی اتنی ہی وہ لکھنے کے لیے بہتر ثابت ہوں گی۔
عہدِ حاضر میں مختلف کاموں کے لیے ۳۵ سے زائد قسم کی پنسلیں بنائی جاتی ہیں۔ ۶۲ سے زائد قسموں کی رنگین کا بھی رواج عام ہوگیا ہے۔ ایسی پنسلیں بھی بنائی جاچکی ہیں جن سے شیشہ، کپڑے، پلاسٹک اور فلموں پر لکھا جاسکتا ہے۔ انجینئروں کے اہم کاموں کے لیے کچھ خاص قسم کی پنسلیں بھی بنائی گئی ہیں جن کی تحریر برسوں تک دھندلی نہیں پڑتی۔