میں سڑک پر تیزی سے چل رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک بیگ تھا اور اس بیگ میں آفس کے چند اہم کاغذات تھے۔ میرے پیر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کا شور کان پھاڑے دے رہا تھا۔
یہ سڑک، شہر کی ایک پر رونق شاہراہ تھی، اس لیے گاڑیوں کا اژدہام تھا۔ مختلف قسم کی گاڑیاں سڑک پر اتنی تیزی سے گزر جاتیں کہ ہوا کا ایک جھونکا آتا اور چلا جاتا۔ یہ سڑک آگے تین سڑکوں سے ملی ہوئی تھی۔ یعنی چوراہا تھا۔ سڑک شاہراہ ہونے کی وجہ سے پیدل افراد نہ کے برابرتھے۔
دفعتاً مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک سفید قمیص والا میرے پیچھے بہت دیر سے چل رہا ہے اور اس کی توجہ میری جانب ہے، لیکن جیسے ہی اُس کو اِس بات کا احساس ہوا کہ میں نے اس پر شبہ کرلیا ہے تو اس نے اپنے آپ کو مجھ سے بے نیاز ظاہر کرنے کی کوشش شروع کردی۔
میری حالت قابلِ دید تھی۔ میں گھبرا رہا تھا کیونکہ میرے ہاتھ کے بیگ میں آفس کے چند اہم کاغذات تھے، جن کی ساری ذمہ داری مجھ پر تھی اور ایسا وقت ایک شخص میرا پیچھا کرے تو ظاہر ہے کہ میری حالت کیا ہوگی۔ میرے بیگ میں روپوں کی گڈیاں ہوتیں تو مجھے اتنا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن وہ تو کاغذات تھے اور وہ بھی میری ذمہ داری پر میرے حوالے کیے گئے تھے۔ اگر کچھ ہوجائے گا تو میری بہت رسوائی ہوگی۔
اِسی رسوائی کے ڈر سے میں اور تیزچلنے لگا۔ میرے پیر تیزی سے حرکت کرنے لگے اور ہاتھ بھی تیزی سے آگے پیچھے ہونے لگا۔ لیکن بیگ والا ہاتھ بہت معمولی سا آگے پیچھے ہورہا تھا۔ بیگ پر میری گرفت مضبوط تھی اور اب اور مضبوط ہوگئی تھی کیونکہ ساری جدوجہد اسی بیگ سے متعلق تھی۔
میں اتنا تیز چلنے لگا کہ میری چال بے ڈھنگی ہوگئی اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ابھی دونوں پیر ایک دوسرے سے الجھیں گے اور میں گر پڑوں گا۔ بیگ دور جاگرے گا۔ اور وہ سفید قمیص والا بیگ اٹھا کر بھاگ جائے گا۔
میں اپنی چال بے ڈھنگی ہونے کے باوجود تیز چل رہا تھا۔ کیونکہ سفید قمیص والا بھی میرا ساتھ دے رہا تھا۔ یعنی اس نے بھی تیز رفتاری سے چلنا شروع کردیا تھا۔ سڑک پر گاڑیوں کا شور بدستور تھا۔
میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے دماغ بھی سر میں دل کی طرح دھڑک رہا ہو۔ چند خیالات تھے۔ وہ بھی منتشر تھے۔ اُن میں ربط محسوس ہو ہی نہیں رہا تھا۔
میرے جسم سے پسینہ نکلنا شروع ہوگیا تھا۔ گھبراہٹ اور تیز چلنے کی وجہ سے لیکن زیادہ اثر گھبراہٹ کا ہی تھا اور وہ مردود اب میرے بیگ پر نظر گاڑے ہوئے تھا۔ جیسے ابھی موقع ملا اور بیگ میرے ہاتھ میں سے اُس کے ہاتھ میں۔ لیکن میری گرفت بھی بیگ پر کم مضبوط نہ تھی۔
لیکن آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سفید قمیص والا تیزی سے میری طرف بڑھا اور میری مضبوط گرفت کے باوجود میرے ہاتھ سے بیگ چھین کر سڑک پر بھاگنے لگا۔ ایک لمحہ کے لیے تو میں نروس ہوگیا۔ لیکن اگلے ہی لمحہ میں نے اس کے پیچھے دوڑ لگادی اور ساتھ ہی ساتھ ’’چور … چور…پکڑو… چور۔‘‘
میں چلاتا ہوا اُس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ سڑک پر پیدل چلنے والوں کی تعداد نہ کے برابر تھی۔ اس لیے اس کا پکڑا جانا ذرا مشکل تھا۔ لیکن میں چلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ وہ تیزی سے بیگ لیے دوڑ رہا تھا اور میں اس سے تیز دوڑنے اور اس کو پکڑنے کے چکر میں تھا، لیکن میرا چلانا فضول تھا۔ کیونکہ گاڑیوں کے شور میں میری آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز کے مترادف تھی۔ ہم آگے پیچھے بھاگتے ہوئے چوراہے کے قریب پہنچ گئے۔
امید کی ایک کرن پھوٹی۔ چوراہے کے بائیں جانب ہماری سیدھ میں ایک شخص رک گیا۔ اُس نے میری آواز نہ سنی ہوگی۔ لیکن معاملے کو سمجھ گیا تھا اس لیے وہ چور کو پکڑنے کے لیے رک گیا تھا۔ میں نے بھی اب اس کو اشارہ کرنا شروع کردیا تھا کہ وہ اس چور کو پکڑلے۔
اب حالت یہ تھی کہ چوراہے پر وہ شخص تھا۔ اور دوسری جانب دوڑتے ہوئے چور کے پیچھے میں تھا۔ یعنی چور ہم دونوں کے درمیان تھا۔ چور کو بھاگنے کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔ اگر وہ چوراہے کے دائیں جانب بھاگنے کی کوشش کرتا تو کوئی گاڑی اُس کا کام تمام کردیتی۔ اب چور بالکل پھنس گیا تھا کیونکہ وہ اس شخص کے بالکل قریب تھا، جو چوراہے پر کھڑا تھا۔
اچانک بائیں جانب سے تیزی کے ساتھ ایک ٹرک نمودار ہوا۔ چور اس کی زد میں آگیا۔ وہ اگر رُک جاتا تو شاید اُسے سوائے اس کے کہ وہ پکڑا جاتا، کچھ زیادہ نقصان نہ ہوتا مگر ٹرک ایک جسم کو کچلتا ہوا نکل گیا۔ سڑک پر خون میں لت پت ایک کچلی ہوئی لاش پڑی تھی اور وہ لاش اُس چور کی تھی جس کو حالات نے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا، کیونکہ مرنے والے کی جیب سے نکلنے والے کاغذات میں ایک خط بھی تھا جس سے یہ واضح ہوا تھا کہ اُسے اپنے جوان بیٹے کے علاج کے لیے فوری دس ہزار روپئے بھیجنا تھے۔ وہ لاش اب کسی چور کی نہیں تھی بلکہ ایک انسان کی تھی— ایک مجبور اور حالات کے مارے ہوئے انسان کی۔
میں اپنی جگہ افسردہ تھا۔ کاش وہ ایسا نہ کرتا۔