تاریخی خط و کتابت اور آج کے حکمراں

حافظ محمد ادریس

[اسرائیل کے قیام کے وقت امریکہ میں ہیری ٹرومین (پیدائش ۱۸۸۴ء وفات۱۹۷۲ء) صدر تھا۔ وہ اسرائیل کا بہت بڑا حامی اور سرپرست تھا۔ اس نے ایک جانب کمیونزم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تو دوسری جانب اسرائیل کے دشمنوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے اُس نے ہر جانب ہاتھ پاؤں مارے، جو مغربی ممالک کچھ تحفظات رکھتے تھے، انہیں بھی قائل کیا اور عرب ملکوں کو بھی دھمکیاں دیں کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کریں، ورنہ بدترین خطرات کے لیے تیار ہوجائیں۔ ٹرومین نے ۱۹۴۸ء میں مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے۔ سب سے دلچسپ خط و کتابت وہ ہے جو ٹرومین اور سعودی عرب کے حکمراں شاہ عبدالعزیز کے درمیان ہوئی۔ ٹرومین امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کے ساتھ ۱۹۴۴ء میں نائب صدر منتخب ہوا تھا، مگر فرینکلن روز ویلٹ اپنی صدارت کا حلف اٹھانے کے چند ماہ بعد اپریل ۱۹۴۵ء میں مرگیا تو ٹرومین خودبخود صدر بن گیا۔ ٹرومین کے ہم عصر مسلمان حکمرانوں میں کنگ عبدالعزیز (پیدائش ۱۸۸۲ء، وفات ۱۹۵۳ء) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو سعودی عرب پر بیسویں صدی کے آغاز سے حکمرانی کررہے تھے۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، اور انہی کے دور میں موجودہ سعودی عرب کی سرحدیں ۱۹۳۲ء میں حجاز ، عسیر اور دیگر علاقوں پر قبضے کے بعد متعین کی گئیں۔ شاہ عبدالعزیز کے دورِ حکومت ۱۹۳۶ء میں تیل دریافت ہوا۔ تیل کی دریافت کے بعد سعودی عرب کی غربت مال داری میں بدلنے لگی۔ سعودی عرب سے تیل کی دریافت اور نکاسی امریکی کمپنی آرامکو کے توسط سے ہوئی۔ ٹرومین نے جب مختلف حکمرانوں کے نام خطوط کا سلسلہ شروع کیا تو کنگ عبدالعزیز کو بھی خط لکھا۔ اس کے خط اور شاہ عبدالعزیز کے جوابی خط کا پورا متن ملاحظہ فرمائیے۔]

صدر امریکہ کاخط

وائٹ ہاؤس

(واشنگٹن ڈی سی)

۱۰؍فروری ۱۹۴۸ء

حضور جلالۃ الملک عبدالعزیز آل سعود، فرماں روائے مملکت سعودی عرب

عزت مآب بادشاہ سلامت!

جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیںکہ ہمارے دونوں ملک آپس میں ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں، جن کی بنیاد عدل و انصاف، آزادی، عالمی سطح پر امن و سلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے، نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنادیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے ملک کی کمپنیوں سے کیا۔ اس طرح ہمیں وہاں تیل نکالنے والے وسیع و عریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک میں ہونے والے ہر خوشگوار اور ناخوشگوار واقعے کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرقِ وسطیٰ میں امن و سلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے بعض ملکوں کو عرب لیگ نے باہم مربوط کررکھا ہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں میں آپ کے ملک کا ایک اونچا مقام ہے، لہٰذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں، تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں، عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگی کو روکنے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرسکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کرلیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے ،کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جاتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب و تکلیف میں گرفتار رہیں، چہ جائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ قرار داد (جو ارضِ مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے سے متعلق ہے) کو کھلم کھلا چیلنج کررہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوامِ متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے، سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے۔

جس بات کا مجھے ڈر ہے، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کردیں، جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہوجانے کا خدشہ ہے۔ یقینا یہ امر ہمارے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی باعثِ رنج و تکلیف ہوگا۔ میں اس امر کو بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کرسکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ امریکی قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر لطف و کرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے۔ ان یہودیوں نے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے، جبکہ یہ قرار دادیں ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کررہیں، لہٰذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرے اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائے۔

جلالۃ الملک! تاریخ آپ کا انتظار کررہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیا جائے کہ شاہ عبدالعزیز وہ بادشاہ ہے جس نے اپنی حکمت اور اثر و رسوخ کے ذریعہ ارضِ مقدسہ میں امن و سلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لہٰذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچالیجیے اور مجبور و مظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیجیے۔میری جانب سے سلام، نیک تمنائیں اور پیشگی پُرخلوش شکریہ۔

آپ کا مخلص

ہیری ٹرومین

٭٭

شاہ عبدالعزیز کاجواب

شاہی محل، ریاض

۱۰؍ ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ

عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ

معزز صدر!

آپ کا ۱۰؍فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا اور آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں، ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں، مگر اس بات کی صراحت بھی ضروری سمجھتا ہوں (کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے) کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں مجھ جیسے (بدوی) عرب حکمران کے بارے میں یوں بدگمانی کرلی، جس کی اسلام اور عرب کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ نے (معلوم نہیں کیسے) یہ تصور کرلیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال کے ذریعے کروں گا۔

اگر کوئی ملک آپ کی کسی اسٹیٹ پر قبضہ کرلے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے، تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بناکر اس میں مقیم ہوجائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملے میں مدد کے خواہاں ہوجائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آپ بڑے محترم ہیں، اس لیے اپنے مقام اور اثرورسوخ کو استعمال کرکے امریکی قوم کو غیرملکیوں کے ساتھ مقابلے سے روکیں، تاکہ یہ اجنبی قوم (آپ کی سرزمین پر) اپنا ملک قائم کرسکے، اس طرح تاریخ بھی آپ، صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے سے امن قائم کرنے والا کہے۔ اس صورت میں، آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبے کا کیا ردِ عمل ہوگا؟

میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں، جو فلسطین میں صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانۂ شہادت پیش کررہے ہیں، کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابلِ فخر ہے۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ صہیونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کردیں۔ جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہوا ہے تو یاد رکھئے کہ یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کرسکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے میں فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کردوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنوؤں کو بند کرسکتا ہوں، تیل کے یہ کنوئیں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں، لہٰذا ہم ان کو کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیاپر یہ بات واضح کردی ہے کہ میں اپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔ پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنویں میری اپنی جان اور میری اولاد سے بھی کیسے عزیز تر ہوسکتے ہیں؟

قرآن مجید نے کہ جس پر ہمارا ایمان ہے، جو ہماری زندگی ہے، جس پر ہم اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں، تورات اور انجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین پر یہودی دخل اندازی اور تسلط کو روکیں جس کا (جہاد کے علاوہ) کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے سے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں توہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک و صاف کردیں۔

جس قسم کی الفت و محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میںعربوں کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات کو منقطع کردیتے، امریکی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے، لیکن ہم نے اس لیے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے مؤقف پر نظر ثانی کرے گا اور واضح باطل کی تائید سے کنارہ کش ہوکر واضح حق کا ساتھ دے گا۔ ہم اس معاملے میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے، نہ اس کے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم عرب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جائے، نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ حق کو پامال کیا جارہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیا رکریں گے، جو اس میں مؤثر ثابت ہوگا، خصوصاً عرب لیگ ملت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تجویز بھی منظور کرے گی، ہم اس کی تائید میں سرگرم ہوںگے۔

یقینا یہ بات میرے لیے باعثِ مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں، وہ ہمارے مہمان ہیں۔ جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمینان رکھیں۔ سب سے زیادہ اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے تو یہی کہ ہمارے ملک میں ان کے قیام کی مدت کو مختصر کرکے پوری عزت و اکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں ان کے ملک امریکہ واپس بھجوادیں۔

آخر میں صاحب صد! میں آپ کو یقین دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیا کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں ان کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ۔

صاحبِ صدر! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں۔

مخلص عبدالعزیز آل سعود

ملک المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں