برطانیہ کی حزب اسلامی کے صدر دائود موسی بیکٹوٹ کے قبول اسلام کا یہ واقعہ ان دنوں سے تعلق رکھتا ہے جب وہ مختلف مذاہب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ ایک طالب علم نے ان کوترجمہ قرآن کریم کا ایک نسخہ لاکر دیا۔وہ اس نسخے کو لے کر گھر آئے اور اس کو کھولا تو سب سے پہلے ان کی نظر سورہ قمر پر گئی۔ انھوںنے اس سورہ کی پہلی آیت اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا)پڑھی۔ آگے کی داستان وہ خود اس طرح سناتے ہیں :
’’ اس آیت کو پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا!!ایسا کیسے ممکن ہے کہ چاند دوٹکڑے ہوجائے اور پھراس کے دونوں ٹکڑے آپس میں جڑ جائیں؟؟
اس سورہ کی وجہ سے میں قرآن کے مزید مطالعے کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ ایک روز گویااللہ نے ہی مجھے ٹی وی کے سامنے لا بٹھایا۔ اس وقت ٹی وی چینل پر ٹی وی اینکر اور امریکہ کے تین بڑے سائنس دانوں کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی۔ اینکر ان سے یہ سوال کیے جا رہا تھا کہ فضائی تحقیقات پر بلا وجہ اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا جارہا ہے جب کہ اس کا کوئی فائدہ نظر آتا محسوس نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ لوگ زمین پر غربت، فقر وفاقہ، قحط اور وبائی امراض اور ناخواندگی جیسے مسائل سے بھی دوچار ہیں۔
گفتگو میں شریک سائنس داں اینکر کو یہ جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ یہ فضائی تحقیقات اور فضائی مہمیں اس طرح کے مسائل کو حل کرنے میں بہت مدد دیں گی۔اپنی گفتگو میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ پہلی بار جب انسان نے چاند کی سر زمین پر قدم رکھا تو اس مہم پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے تھے۔اینکر نے فوراً ہی ان کی بات پکڑتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کیسی بے وقوفی اور حماقت کی بات ہے؟ آپ نے اتنی بڑی رقم محض اس لیے خرچ کرڈالی تاکہ چاند کی زمین پر اپنے علم کا جھنڈا گاڑ دیں۔‘‘
سائنس دانوں نے اپنے نقطہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس رقم کو خرچ کرنے کا مقصد اپنے علم کا جھنڈا بلند کرنا نہیں تھا،بلکہ مقصد یہ تھا کہ چاند کے اندر کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے۔اور حقیقت میں اس کے نتیجے میں جو معلومات ہمیں حاصل ہوئیں اس کو ثابت کرنے کے لیے اگر ہم اس سے دوگنی دولت بھی خرچ کرڈالتے تو لوگوں کو ان معلومات کے سچ ہونے پر مطمئن نہ کرپاتے۔
اینکر نے پوچھا کہ وہ کون سی حقیقت تھی جس کا راز وہاں جاکر ہی آپ کے اوپرآشکارا ہوا؟
’’یہ کہ چاند کبھی دو ٹکڑے ہوگیا تھا اور بعد میں دونوں ٹکڑے دوبارہ آپس میں مل گئے۔‘‘انھوں نے جواب دیا۔
لیکن اس کا علم آپ کو کسیے ہوا؟ اینکر نے پھر سوال کیا۔
اس کے جواب میں انھو ںنے جو کچھ بتایا وہ یہ کہ ہم نے یہ دیکھا کہ چاند کی سطح سے لے کر اندر تک چٹانوں کی ایک پٹی سی کھنچی ہوئی ہے۔ اس کے متعلق ہم نے جیولیوجی کے سائنس دانوں سے دریافت کیا۔ انھوں بتایا کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ چاند دوٹکڑے ہو کر پھر دوبارہ ایک ہوگیا ہو۔
یہ سن کر میں اپنی کرسی سے اچھل پڑا اور حیرت کے عالم میں میرے منہ سے نکلا کہ یہ تووہی معجزہ ہے جو تقریباً چودہ صدیوں پہلے محمد ﷺ کے ساتھ پیش آیا تھا۔اللہ تعالی نے امریکیوں کو یہ کام کرنے پر اس لیے مجبور کیا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں اس معجزے کو سچ ثابت کردیں۔یہ دین تو سراسر بر حق ہے۔ میں فوراً کھڑا ہوا اور دوبارہ سورہ قمر کی تلاوت کرنے لگا۔اور وہیں سے میں اسلام کے اندر داخل ہوتا چلا گیا۔
——