’’امی… امی! مجھے دس روپے دیں چپس لاؤں گا۔‘‘
’’کیوںبھئی! ابھی ایک گھنٹہ ہوا ہے تمہیں کھانا کھائے ہوئے، تو اب چپس کی کیاضرورت ہے؟‘‘
’’بس دل چاہ رہا ہے۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں۔ دکانوں میں پتا نہیں کب کب کی چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔ میں تمہیں شام کو گھر میں فنگر چپس بنادوں گی۔‘‘
’’نہیں بس مجھے دکان کے ہی چاہئیں، بڑے مزے کے ہوتے ہیں۔‘‘
’’بیٹا! وہ اچھے نہیں ہوتے۔ تمہیں تازہ بناکر دوں گی۔‘‘
’’میں کہیں اور سے لے لوں گا۔‘‘
’’بات تو وہی ہے نا۔ بازار کی اکثر چیزیں باسی ہوتی ہیں! تازہ چیز کھاؤ۔ باسی اور رکھی ہوئی چیز کھانے سے کیا فائدہ؟‘‘
شایان نے منہ بسورا اور چپ ہوگیا۔
٭٭
یہ اور اس طرح کے مسائل آج کل ہر بچوں والے گھر میں پائے جاتے ہیں۔ ماؤں کو یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ Fast Food اور Junk Foodمیں غذائیت نہیں ہوتی، نہ ہی وہ صحت بخش ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو بھی اس سلسلے میں بچوں کی رہنمائی کرنی چاہیے، لیکن بڑی حیرانی کی بات ہے کہ جو ٹیچر بچوں کو Junk Food کے نقصانات بتارہی ہوتی ہے، اسی کے اسکول میں کینٹین سے ٹافی، بسکٹ، ببل گم، چپس، برگر جیسی مضر چیزیں بچے لے کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ قول و فعل میں تضاد اسی کو کہتے ہیں۔
بعض خواتین کہتی ہیں کہ صبح بچوں کو لنچ بناکر دینا بڑا مشکل کام ہے۔ شوہر حضرات کے بھی آفس جانے کا ٹائم ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ یہ دونوں کام بڑی مشکل سے کرپاتی ہیں۔ نتیجتاً بچوں کو لنچ کے لیے ٹافی، چپس، بسکٹ وغیرہ دلا دیے جاتے ہیں۔ بھلا یہ چیزیں لنچ کا نعم البدل ہوسکتی ہیں؟ اب ہوتا یہ ہے کہ بچہ بریک میں اپنی چیزیں چھوڑ کر اپنے ساتھی بچوں کے کھانے میں شیئر کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح بچے میں لالچ پیدا ہوتا ہے۔
اصل میں میڈیا بھی بچوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہورہا ہے۔ ہر مضر صحت چیز کو ٹی وی پر اتنے خوب صورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ معصوم بچے اس میں بہت کشش محسوس کرتے ہیں اور ماؤں سے انہی چیزوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ ایسے میں سمجھ دار خواتین بچوں کو گھر کی بنی ہوئی چیزیں دیتی ہیں، چاہے لنچ ٹائم ہو یا شام کی چائے۔
میں سمجھتی ہوں کہ اپنے بچوں کو ہم جس چیز کا عادی بنائیں وہ ویسے ہی بن سکتے ہیں۔ ان کو بتانے کی ضرورت ہے کہ بازار کی چیزیں باسی اور مضرِ صحت ہوتی ہیں۔ لنچ میں بچوں کو فرنچ توس، مکھن یا مایونیز لگے ہوئے توس، چکن اور سبزی سے بنے ہوئے سینڈوچ دیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے خاتونِ خانہ کو آدھا کام رات سے ہی کرلینا چاہیے۔ باقی کام صبح کرسکتی ہیں۔ میٹھی ٹکیاں یا نمک پارے بناکر دے سکتی ہیں۔ یہ کم از کم دو تین گھنٹے فریش رہ سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ یہ چیزیں گھر کی بنی ہوئی ہوں۔ بصورتِ دیگر آپ کے بچے کا سب سے پہلے معدہ متاثر ہوسکتا ہے۔ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ ہر اچھی بری بات کا اثر بچے سب سے پہلے ٹی وی سے ہی قبول کرتے ہیں۔ انہیں اس سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ماؤں کو تھوڑی محنت کرنی پڑے گی، پھر دیکھئے آپ کا بچہ بازار کی چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔
اور ایک بات… پانی کی بوتل میں روح افزا یا دیگر مشروبات بناکر دیں۔ اس طرح بچہ کینٹین سے کولڈ ڈرنک بھی نہیں پئے گا۔ کولا مشروبات میں کیفین ہوتی ہے، جو انتہائی مضر صحت ہے۔
بعض مائیں فخریہ کہتی ہیں: ’’بھئی ہمارا بچہ تو لال شربت نہیں پیتا، اسے تو کولا مشروب ہی چاہیے۔‘‘ تو بھئی آپ ذرا سی کوشش سے اسے روح افزا کا عادی بناسکتی ہیں۔ لال رنگ ویسے ہی اپنے اندر کشش رکھتا ہے، تو شیشے کے گلاس میں اس رنگ کا شربت یقینا بچے کو اچھا لگے گا۔ ساری بات سمجھ کی ہے، اگر ماؤں کی سمجھ میں آجائے کہ بازاری چیزیں بچوں کے لیے اچھی نہیں، تو وہ بچوں کو بھی سمجھا ہی لیتی ہیں۔ ——