دس روپے ٹیبل پر رکھے تھے۔ اس نے بغیر اپنے والدین کی اجازت کے ان کی نظریں بچا کر ٹیبل سے اٹھا لیے اور اپنی جیب میں رکھ کر خاموش گھر سے نکل پڑا۔
دس روپے جیب میں آتے ہی اس کے دل کے دھڑکنے کا انداز بدل گیا اور سارے بدن میں ایسی تازگی آگئی کہ اسے اپنے پاس پیسے ہونے کا احساس ہونے لگا۔ کچھ خریدنے کی تمنااس کے دل میں مچلنے لگی…
اس نے گھر سے نکل کر کچھ دیر نکڑ پر کھڑے ہوکر جانے کیا سوچا اور پھر … اس کے قدم سیدھے بازار کی طرف اٹھ گئے۔
بازار میں مختلف سامان کی سجی ہوئی دکانیں تھیں۔ ہر دکان پر دل لبھانے والے نت نئے اشتہارات آویزاں تھے… ایسا لگتا ہے جیسے چیزوں کی نہیں اشتہارات کی خریدوفروخت کی دکانیں سجی ہیں۔
آج بازار میں کافی چہل پہل اور رونق لگ رہی تھی۔ آج سے قبل وہ اپنے والد کے ہمراہ بارہا بازار گیا تھا۔ مگر اسے بازار اتنا پُرکشش کبھی نہیں لگا تھا۔ حالانکہ بازار وہی تھا۔ دکانیں ویسی ہی سجی سنوری تھیں۔ اشتہارات بھی نہیں بدلے تھے۔ رونق اور چہل پہل حسبِ معمول تھی۔ فرق صرف اتنا ہوگیا تھا کہ آج اس کی جیب میں دس روپے کا کرارا نوٹ تھا۔
نوٹ: کرارا ہو یا پرانا بوسیدہ گرمی ایک سی رکھتا ہے۔
نوٹ : غریب کے پاس ہو یا امیر کے پاس خواہشات کی تکمیل کاحوصلہ دیتا ہے۔
نوٹ:بوڑھے کے پاس ہو یا بچے کی جیب میں اس کے ارمان پورے ہونے کے لیے مچل اٹھتے ہیں۔
بازار میں پہنچتے ہی اس کے ارمان مچلنے لگے، کھلونے لینے کاارمان… ٹافیاں خریدنے کا ارمان… بسکٹ کھانے کا ارمان… دس روپے میں یہ سب ارمان تو پورے نہیں ہوسکتے۔ وہ سجی ہوئی دکانوں کے درمیان کھڑا سوچ رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ساری دکانیں خرید لے۔ سارے بازار کا مالک بن جائے۔
پیسہ جیب میں آتے ہی ہوس کیسے بڑھ جاتی ہے۔ ارمان کتنے بے لگام ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچ ہی رہا تھا، کاش! میرے پاس بہت پیسے ہوتے۔ بہت … مگر میرے پاس تو صرف دس روپے ہیں۔ میں کیا خریدوں دس روپے میں۔
وہ بازار میں آنے سے قبل نکڑ پر کھڑا جو سوچ رہا تھا، وہی خیال پھر اس کے ذہن میں آیا۔ اور ایک چہرہ جو اس کے شعور میں افسردہ افسردہ تھا… اس کے تصور کے پردے پر نمودار ہوا… اور ا سکے اندر دکانیں خریدنے اور بازار کے مالک بن جانے کی ہوس نے دم توڑ دیا…
وہ انتہائی جلدی کے عالم میں ایک دکان کا پائیدان چڑھا اور دس روپے کی وہ چیز خریدی جس کی افسردہ چہرے والے کو ضرورت تھی اور پھر اس چیز کو قمیص کے نیچے پینٹ کے بیلٹ میں پیٹھ کی طرف کھوس کر گھر کی طرف چل پڑا۔
جیسے ہی اس نے گھر میں قدم رکھا۔ اس کے والد اولے برسانے والے بادل کی طرح اس پر گرجے ’’ٹیبل پر رکھے ہوئے دس روپے کہاں ہیں؟!‘‘ اس کی والدہ بھی کچن سے نکل کر آگئی تھیں۔ ’’بیٹا کیا تو نے دس روپئے ٹیبل سے اٹھائے؟‘‘
’’ہاں… ‘‘ اس نے اثبات میں سرہلاکر کہا
’’بغیر اجازت … ہمیں بغیر کچھ کہے … یہ چوری ہے۔‘‘ اس کے والد اسے پیٹنے لگے۔
والدہ ڈانٹنے لگیں، ’’ایسا کون سا شوق تجھے لگ چکاہے کہ تو نے دس روپئے چرائے۔ بتا!‘‘
’’وہ میں نے …‘‘ لڑکاسسک کر کہنے لگا۔
’’میری کلاس میں ایک غریب لڑکا پڑھتا ہے۔ اس کے لیے میں نے کاپی خریدی۔‘‘
اس نے اپنی قمیص کے نیچے پیچھے کی طرف پینٹ کے بیلٹ میں کھوسی ہوئی کاپی نکال کر والدین کے سامنے بڑھا دی…
طمانچے کے لیے اس کے والد کا اٹھا ہوا ہاتھ ہوا میں رک گیا۔ والدہ نے آگے بڑھ کر بے اختیار اسے گلے لگالیا…
’’تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا بیٹے۔ اگر تم ہم سے کہہ دیتے تو ہم انکار نہیں کرتے۔‘‘
’’ہاں امی… مگر ہمارے سر نے کہا تھا کہ کسی ضرورت مند اور محتاج کی مدد اتنی چھپا کر کرو کہ ایک ہاتھ سے دو تودوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہونے دو۔ اسی لیے میں نے…‘‘ بچہ معصومیت سے کہنے لگا۔
’’بیٹا تم نے نیک کام کیا ہے۔ اگر تم ہم سے پوچھ لیتے تو ہم تمہیں منع نہیں کرتے۔‘‘
والدہ اسے پیار سے سمجھانے لگیں۔
’’نیک کام کون سے ہیں امی؟‘‘
’’نیک کام بیٹا … نیک کام تو بہت ہیں، بس ابھی تم اتنا سمجھ لو کہ وہ سارے کام جس کے کرنے میں کہیں بھی کسی بھی قسم کا ڈر، خوف نہ ہو، خوشی ہو، مسرت ہو اور جس کام کے کرنے میں اگر تمہیں تکلیف بھی پہنچے تو کوئی رنج نہ ہو ایسے سارے کام نیک کام ہی ہوتے ہیں بیٹا۔‘‘
والدہ بچے کو سمجھا رہی تھیں اور اس کے والد وہ سرجھکائے کرسی پر بیٹھے رو رہے تھے۔
’’آپ کیوں رو رہے ہیں جی! اپنے بیٹے نے کوئی غلط کام تھوڑا کیا ہے۔‘‘
’’میں اپنے بچے کے فعل پر نہیں رو رہا ہوں۔ میں اس لیے بھی نہیں رو رہا ہوں کہ میں نے اسے سزا کیوں دی، بلکہ میں اس لیے رو رہا ہوں کہ بچپن میں معصومیت کے دور میں، جس دور میں خدا نماز روزہ معاف رکھتا ہے، ایسے دور میں میں نے کئی بار اپنے والدین سے کبھی جھوٹ بول کر ، کبھی آنکھوں میں دھول جھونک کر پیسے اڑائے… ان کی نافرمانیاں کیں، جس کے عوض اکثر میرے والدین نے مجھے مارا پیٹا…مجھ سے جانے کتنے گناہ ہوچکے ہیں اور وہ سارے جہاں کا مالک، جس کے قبضے میں میری جان ہے، جس کا میرے وجود پر، میری ہر سانس پر پورا پورا اختیار ہے، اس نے مجھے کبھی سزا نہیں دی، کبھی نہیں مارا۔ مجھے درگزر کرتا رہا، درگزر کرتا رہا … سچ مچ وہ ، میرے والدین سے زیادہ، میرے رشتے داروں سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا ہے… اور میں…!
میں اپنے بچے کا بغیر میری اجازت کے ایک نیک کام بھی برداشت نہ کرسکا… اور وہ میرے گناہ…‘‘ وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔